قائد ہو تو کیسا ہو

Posted on at


  دوپہر کا وقت تھا ، سورج سو ا نیزے پہ قیامت کی آگ برسا رہا تھا، شدت دھوپ کی وجہ سے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے، عرب کے صحرا میں دور دور تک کوئی شخص چلتا نظر نہیں آتا تھا، لیکن عر ب کے اس کھلے صحرا میں شدت دھوپ کے باوجود ایک شخص ایسا بھی تا ریخ کے اوراق میں نظر آتا ہے جو اکیلا دھوپ میں بیٹھا ہے، اس کے دھوپ میں بیٹھنے کی وجہ اس کا شوق نہیں تھا اور نہ ہی اسے سردی لگ رہی تھی بلکہ بھوک کی وجہ سے وہ اپنی منزل تک پہنچنے سے قاصر تھا ، شدت بھوک سے دھوپ میں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کسی انسان کا گزر ہو تو وہ سمجھ جائے میرے بیٹھنے کو، تھوڑا وقت گزرا اور سورج کی تمازت میں ٹھنڈک آ نے لگی تو ایک شخص وہا ں سے گزرا ،گزرنے والے شخص کا چہرہ بھی مرجھا یا ہو ا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ مفلسی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ، راستے میں بیٹھے شخص نے گزرنے والے شخص سے مسئلہ پوچھا کہ حضرت فلاں مسئلہ کس طرح ہے، اس شخص نے جواب دیا اور چلتا بنا ، یہ نہ پوچھا کہ راستے میںکیوں بیٹھے ہو ، بیٹھے شخص نے خود ّاری کی وجہ سے اصل مسئلہ نہیں بتایا کہ بھوک نے ستا یا ہے گھر میں کچھ کھا نے کو ہے تو لے جاﺅ ، ابھی پہلے شخص کو گزرے تھوڑا وقت ہی
 ہوا تھا کہ ایک اور شخص آتا ہو ا دکھائی دیا جس کو دیکھتے ہی انسانوں پہ کپکپی طاری ہوجاتی تھی ، جس کا درّا زمانے بھر میں مشہور تھا۔ جس کا حکم دریاﺅں پہ بھی چلتا تھا ، جو کانپتی زمین پہ درّا مارتا تو وہ بھی ٹھہر جاتی تھی،جب وہ قریب پہنچا تو اس شخص نے وہی سوال دوبارہ دہرایا ، اس دراز قد والے شخص نے جواب دیا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا ۔ کچھ دیر بعد اس شخص کا قائد آتا ہے تو راستے میں بیٹھا کارکن سوال دہراتا ہے اور اپنے محبوب قائد سے سوال پوچھتا ہے کہ قائد ِ محترم یہ مسئلہ کس طرح ہے ؟ کارکن نے جب سوال کیا تو قائد نے مسکراتے ہوئے کہا میں سمجھ گیا ہوں کہ اصل مسئلہ کیا ہے ، اُ ٹھو گھر چلتے ہیں ۔وہاںپہنچ کے آپکا مسئلہ حل کرتے ہیں ، قائد اپنے کارکن کی انگلی پکڑکے گھر جاتے ہےں اور اپنی بیوی سے پوچھتے ہیں کہ گھر میں کچھ کھا نے پینے کو ہے ، تو وفا دار بیوی جواب دیتی ہے کہ کھانے کوتوکچھ نہیں ، پینے کو البتہ دودھ کا پیالہ ہے، بیوی کا جواب سُن کے قائد اپنے کارکن کو حکم دیتا ہے،صُفہ کے ادارے میں زیر ِ تربیت دیگر کارکنوں کو بلا کے لے آﺅ ، انہوں نے بھی کچھ کھا یا پیا نہیں ہو گا ، قائد کا حکم سُن کے کارکن اپنے دیگر ہم مشن ساتھیوں کو بھی لے کے آجاتا ہے ، جب تمام کارکن اکھٹے ہوئے تو قائد نے حکم دیا کہ بسم اﷲ پڑھ کے دودھ کا پیا لہ ایک ایک کو پلاتے جاﺅ جب سب نے خوب سیر ہو کر پیا تو قائد نے اپنے اس کارکن کو کہا جو راستے میں بیٹھا تھا تم بھی پیو ، جب تین مرتبہ کارکن پیالے سے دودھ پی چکا تو آخر میں قائد نے دودھ پیا ۔ قارئین کرام راستے میں بیٹھے کارکن کو دنیا ابو ہریرہ
کے نام سے پہچانتی ہے اور اس کے قائد کو محمد رسولاﷲ کے نا م سے جانتی ہے اور پہلے دو گزرنے والی شخصیات ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کی تھیںجو خود بھی بھو ک سے نڈھال تھیںآپ ایک منٹ کے لیے ذرا رک کر سوچیں کہ حضور پہلے بھی تو دودھ پی سکتے تھے لیکن انھوں نے آخر میں کیوں پیا؟ اس سے کیا پیغام ملتا ہے ، کارکنوں کی قیادت کرنے والوں کو یہی پیغام ملتا ہے حضور کے اس عمل سے کہ کارکن قابل ِ عزت ہیں ،قابل ِ نفرت نہیںاور دوسرا جو پیغام ملتا ہے وہ یہ کہ قائد جب اپنا مال کارکنوں پہ خرچ کرے گا تو اس کے مال میں اﷲ برکت ڈالے گا، کارکنوں پہ مال خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہو جاتا لیکن افسوس کہ ہماری قیادت نے ملک کو بھی لوٹا ، کارکنوں کو بھی استعمال کیا اور تحفے میں بھوک ، افلاس ، بدامنی ، قتل و غارت ، اور لوڈ شیڈنگ دی۔کیا قیادت ایسی ہونی چاہیے؟ اور بعض قائدین تو ایسے ہیں جن کے لیے کارکن دھوپ میں زند ہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔لیکن قیادت انہیں ہاتھ تک بھی نہیں ملاتی اگر کوئی کارکن فرط جذبات میں اپنے قائد سے ملنے کی کوشش کرتا ہے تو سیکورٹی گارڈ اسے دھکے دے کر اس کا کچومر نکال دےتے ہیں اور قائد گاڑی میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کیا مذہبی و کیا غیر مذہبی سبھی قائدین کا یہ حال ہے اور خود میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہو گزراجس نے مجھے اندر سے کرچی کرچی کیا ہے۔ وہ دن اور آج یہ دن میں بڑے لوگو ں سے ملنا پسند نہیں کرتا ، مجھے رنج ہوتا ہے عزت نفس کھونے سے ، میرا جی نہیں کہ بڑے لوگوں کی محفل کا حصہ بنوں ۔ غیر شعوری عمر میں لگنے والی ٹھوکر نے مجھے ڈرایا ہے سخت، ہوایوں کہ بچپن میں ایک جماعت کے لیڈر سے محبت کرتا تھا اور میری خواہش رہتی تھی کہ میں اپنے قائد کے ساتھ ہاتھ ملالوں لیکن کوئی ایسا موقع میسر نہیں آرہا تھا قائد کوچھونے کا اور دوسری بات یہ کہ میں خود بچہ تھا اتنا اعتماد نہیں تھا کسی کے سامنے اپنی حسرت بیان کرتا ، خدا کی شان کہ وہ مذہبی شخصیت ہمارے شہر میں آئی تو خلقت شہر امڈ آئی دیدار قائد کرنے اور ان کا بیان سننے، میں بھی اس جلسے میں گیا انہیں سننے ، جب جلسہ ختم ہو ا اور ہٹو بچو کی صدا ئیںلگنا شروع ہوئیں تو لوگ لائن بنا کے کھڑے ہوگئے سٹیج کے راستے پر، میں بھی ہجوم میں کھڑا ہو گیا ، مسلح گارڈ کے ہجوم میں جب وہ مذہبی شخصیت اس راستے سے گزرنے لگی تو کوئی شخص بھی آگے بڑھنے کی جسارت نہیں کر رہا تھا سیکورٹی گارڈوں کے ڈر کی وجہ سے ، جب وہ شخصیت میر ے پاس سے گزرنے لگی تو میںنے آگے بڑھ کر اونچی آواز کے ساتھ سلام کیا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا اس رہنما کی طرف ، خد ا گواہ ہے کہ نہ تو اس رہنما نے ہاتھ ملایا اور نہ ہی سلام کا جواب دیا ، البتہ غصے کے ساتھ دیکھ کر آگے چل پڑے ، مجھے اپنے فعل پر سخت ندامت ہوئی اور مجھے شرمندگی کا سامنا کر نا پڑا لوگوں کے سامنے ، میرے اندر جو زعم تھا لیڈر بننے کا اور ان کے نقش ِ قدم پہ چلنے کا تو وہ کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ٹوٹا اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرا۔میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ آج کے بعد کسی شخصیت کے پیچھے بھاگنا نہیں ہے ، یا د رہے (کہ وہ مذہبی رہنما اب دنیا میں نہیں ہے تب ان کا نام نہیں لکھ رہا) میں آج شکر یہ ادا کرتا ہوں اس رہنما کا کہ اس کے رویے سے میرا مستقبل صاف ہو گیا ، اگر وہ مجھ سے ہاتھ ملا لیتا تو آج بھی ان کے سحر میں ہی گرفتار ہوتا اور زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا رہا ہو تا ، قائدین کو چاہیے کہ وہ کسی کے جذبات کو توڑتے ہوئے سوچا کریںکہ قائد عوام بنا یا کرتی ہے۔جلسے کارکنوں کی وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں ، تمہیں اسمبلیوں میں عوام منتخب کر کے بھیجتی ہے۔ آپ کو جن لوگوں کی وجہ سے عزت ملتی ہے آپ اگر انہیں عزت نہیں دیںگے تو آپ احسان کے بدلے احسان نہیں کر رہے بلکہ برائی کی بنیا د رکھ رہے ہیں۔ اگر کارکنوں کو دال روٹی ساگ مہیا نہیں کر سکتے تو کم از کم انہیں عزت تو دے سکتے ہو۔    



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160