ایک سچا عاشق رسول - آخری حصّہ

Posted on at


حضرت خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے اپنے گھر میں قیدی بنا لیا اور ان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا وہ ان کو پریشان کرنے کے لئے روز نت نئے طریقے آزمانے لگے مگر اس مجاہد کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی . یہ ظالم لوگ اکثر حضرت خبیب کا کھانا بھی بند کر دیا کرتے ایسے ہی ایک دفعہ ایک واقعہ پیش آیا . حضرت خبیب ایک کمرے میں قید تھے اور ان کا کھانا پینا بند کیا گیا ہوا تھا کہ ایک دن اہل خانہ کی ایک چھوٹی بچی گھومتے پھرتے اس جانب جا نکلی اور جسے ہی اس نے حضرت خبیب کو دیکھا فوری طور پر باہر بھاگی اور پکار کر کہنے لگی کہ خدا کی قسم! میں نے اس کو انگوروں کا ایک بڑا گچھا پکڑ کر انگور کھاتے ہوۓ دیکھا ہے جبکہ اس کا بدن بھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مکہ شہر میں انگوروں کا موسم بھی گزر چکا ہے شائد یہ وہ رزق ہے جو خدا نے اسکو عطا کیا ہے . واقعی یہ وہ رزق تھا جو الله نے اپنے نیک بندے کو عطا کیا تھا اور یہ ویسا ہی رزق تھا جیسا کہ اس سے پہلے حضرت مریم کو دیا گیا تھا . اس بات کا ذکر قرآن میں بھی ہوا ہے .


" زکریا جب کبھی بھی ان کے پاس جاتا تو کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان ان کے پاس پاتا دریافت کرتا : اے مریم یہ سب تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ جواب ملتا الله کے پاس سے آیا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے "  ال عمران: ٣٧



انہی ایام میں کفار نے حضرت خبیب کے ساتھ حضرت زبیر جو ان کے ساتھ ہی گرفتار کئے گئے تھے کو بیدردی سے شہید کر ڈالا اور پھر یہ خبر حضرت خبیب کو سنا ڈالی مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح سے اس مرد آہن کے اعصاب کو شدید ذہنی صدمہ پہنچایا جاۓ اور انکی ذہنی اذیت میں اضافہ کیا جاۓ مگر آفرین ہے حضرت خبیب کی ہمت اور حوصلے پر کہ انہوں نے اس اندوہناک خبر کو پورے صبر اور تحمل سے سنا اور کفار کو اپنا سا منہ لے کر لوٹنا پڑا . کافر یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی حضرت خبیب پر خاص عنایت ہے. جب کفار مکہ اپنے اس شیطانی منصوبے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے آپ کو قتل کر دینے کا پروگرام بنایا اور اس منصوبے کے تحت حضرت خبیب کو لے کر مقتل کی طرف روانہ ہو گئے . جب وہ اس مقام پر پہنچ گئے تو حضرت خبیب کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب ان کے پاس زندگی کی مہلت کم رہ گئ ہے اس لئے انہوں نے کافروں سے آخری دفعہ ٢ رکعت نماز پڑھنے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئ


 


حضرت خبیب نے بہت سکون سے نماز ادا کی . اس نماز میں ان کو بہت زیادہ سکون مل رہا تھا اور انکی روح جذبہ ایمانی سے سرشار تھی اور ان کا دل کر رہا تھا کہ اس نماز کو مزید طول دیں مگر انہوں نے نماز ختم کر دی اور اپنے قاتلوں سے کہنے لگے " خدا کی قسم ! میں اس نماز کو طویل کر دیتا مگر تم لوگ یہ سوچنے لگ جاتے کے میں شائد موت سے بچنے کے لئے ایسا کر رہا ہوں" اس کے بعد انہوں نے اپنے قاتلوں کے لئے بد دعا کی کے اے اللہ ان سب کو پہچان لے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دے. کافروں نے حضرت خبیب کو ایک بہت بڑی صلیب سے باندھ دیا جو کھجور کے تنے سے تیار کی گئی تھی اور نیزے اور تلواریں ہاتھ میں تھام کر اس وحشتناک عمل کے لئے تیار ہو گئے .


موت سر پر کھیل رہی تھی مگر حضرت خبیب کے چہرے پر نورانیت اور سکون نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا . اس موقعے پر ایک سردار آگے بڑھا اور آپ سے پوچھا " کیا تم یہ نہیں چاہتے کے اس وقت محمد صلّ اللہ و سلم تمہاری جگہ ہوتے ؟" حضرت خبیب نے جواب دیا کہ " میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آنحضرت صلّ اللہ و سلّم کو ایک کانٹا بھی چبھ جاۓ اور میں سکوں سے اپنے گھر والوں میں بیٹھا ہوں " اتنا کہنے کی دیر تھی کہ کفار کے ہاتھ حرکت میں آئے اور اس جانباز مجاہد کو شہید کر دیا گیا 


**********************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160