احساس

Posted on at


احساس

میرے پاس لائٹنگ ٹیبل پر مختلف اخبارات بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں چھپی دو مختلف خبریں ذرا انوکھا پن ہونے کی وجہ سے ہرشخص کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور جنہیں پڑھ کر ہر احساس رکھنے والا دکھیا ہو جاتا ہے خبروں کے ساتھ لگی تصاویر زبان حال سے وقت کے حکمرانوں اور دولت مندوں کو پکارپکار کر اپنی داستان غم سنا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ تم بھی مسلمان ہو اور ہم بھی نبی رحمت ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ا ﷲ نے تمہاری قسمت میں دولت اور ہماری قسمت میں کسمپری اور غربت لکھ دی ہے لیکن اﷲ نے تمہاری دولت میں ہمارا حصہ زکوٰٰۃ ، صدقات اور عطیات کی صورت میں رکھا ہے اگرچہ تم ہمارا اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ حق ادا کرتے اور اسے انسانی اور مسلمانی فریضہ سمجھتے تو ہم یوں سڑکوں پر نہ نکلتے میں نے دو تصاویر کو دیکھا اور پھر خبروں کی طرف متوجہ ہو گیا پہلی تصویر اسلام آباد کی ہے جہاں ایک آدمی درخت پر چڑھ کر خودکشی کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اچانک انتظامیہ کے کچھ افراد وہاں پہنچ کر اس شخص کو نیچے اتار دیتے ہیں یوں وہ قسمت کا مارا اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہو جاتا ہے اس کے ساتھ دوسری تصویر ایک مفلوک الحال عورت کی ہے جو اپنے دو بچوں کو لئے بیٹھی ہے اور ان کی آنکھوں سے حسرت اور ناامیدی ٹپک رہی ہے یہ عورت بھی غربت سے تنگ آ کر گھر سے نکلی اور پٹڑی پر لیٹ کر اپنے دونوں جگر گوشوں سمیت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی کہ چند لوگوں نے وہاں پہنچ کر انہیں سمجھا بجھا کر اپنے ارادے سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔


یہ خبریں پڑھ کر مجھے مسلمان ہونے پر شرم محسوس ہونے لگی اور میں سوچنے لگا کہ میں کیسا مسلمان ہوں کہ حضورﷺ نے مسلمان کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ " مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر کسی ایک حضے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارابدن بلبلا اٹھتا ہے" لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ رات کو بھوکے سو جاتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کے پاس رہنے کیلئے مکان تک موجود نہیں اور وہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کیلئے لوگ ترس جاتے ہیں اور انسان بھی اسی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں جہاں سے کتے اور جانور پانی پیتے ہیں۔ شادی ہالوں میں ہم اتنا زیادہ کھانا ضائع کرتے ہیں اور انہی ہالوں کے باہر کچرے کے ڈبوں سے لوگ کتوں اور بلیوں کے ساتھ مل کر اپنے لئے کھانا تلاش کرتے نظر آتے ہیں ہمارے جسم کو ذرا برابر تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں مسلمانیت ختم ہو چکی ہے مادیت کے اس دور میں ہم ایک دوسرے سے بڑھنے میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ ہمیں دوسرے کا دکھ درد ہی نہیں دکھائی دیتا ۔.



مجھے اپنے بانی ہونے پر بھی شرم آتی ہے کہ ہم جشن آزادی کے موقع پر بٹے پرجوش انداز میں لہل لہک کر یہ ملی نغمہ گاتے ہیں کہ



اس پرچم سے سائے تلے ہم ایک ہیں



یوں محسوس ہوتاہے کہ ہمارا ایک ہونے کا نعرہ صرف زبانی دعوہ ہے حقیقی معنوں میں ہم ایک نہیں ہیں۔ اگر ایک ہوتے تو ہمارے درمیان یوں امیری اور غریبی کی تفریق نہ ہوتی اگر ہم ایک ہوتے تو یوں ہمارے ملک میں لوگ دوائی اور کھانا نہ ملنے کی وجہ سے خودکشیاں اور خودسوزیاں نہ کرتے اگر ہم ایک ہوتے تو ہمارے حکمران شہ خرچیوں میں ساری دنیا دنیا کے حکمرانوں کا مقابلہ کرتے نظر نہ آتے، کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کیلئے ایک گاڑی خریدی گئی جس کی قیمت ایک کروڑ پینتیس لاکھ تھی لیکن وہ گاڑی موصوف کو پسند نہ آئی چنانچہ اس کی جگہ دوسری گاڑی خریدی گئی جس کی قیمت ایک کروڑ ترینسٹھ لاکھ روپے تھی یہ تو ایک مثال ہے ورنہ تو ہمارے وطن عزیز کا وزیر تو دور کی بات وزیروں کے چپڑاسی بھی عوامی دولت کو ذاتی ملکیت سمجھ کر ہاتھ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں کیا ایسے ملک کے حکمرانوں کو یہ شہ خرچیاں کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے کہ جس کا ایک بچہ مقروض پیدا ہوتاہے جہاں کے ستر فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔


اس صورتحال میں حکمرانوں سے بھلائی کی توقع رکھنا بے معنیٰ اور فضول سی بات ہے البتہ ہمارے ملک کے امراء اور دولت مند لوگ ان لوگوں کی غربت کم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ مجھے غریبوں اور مستحق لوگوں تک ان کا حق پہنچانا ہے تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا اور کوئی شخص اپنے جگر گوشوں کو بیچنے پر مجبور نہیں ہو گا۔ اس ملک میں ہزاروں ارب پتی اور سینکڑوں فیکٹریاں ہیں یہ تمام دولت مند اگر مہینے کے ایک دن کی تنخواہ غریبوں کیلئے وقف کر دیں تو کافی حد تک ہم ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں اور غرباء کی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہمارے پاس ان کیلئے وقت نہیں ہے ہماری روزمرہ کی ترجیحات میں غریب اور بے سہارا لوگوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہم کل اﷲ کو کیا جواب دیں گے میرے خیال میں ہم غفلت اور بے حسی کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے خوف جیسی عظیم نعمت سے محروم ہو جاتا ہے ۔.جس میں انسان اور پتھر میں کوئی فرق نہیں ہوتا ایک خبر پڑھئے ، برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کا بادشاہوں جیسا طرز رہائش اور شاہانہ لباس ہی نہیں بلکہ ان کے زیر استعمال ہر شے سونے ہیرے اور چاندی سے چمکتی دکھائی دیتی ہے ایک اندازے کے مطابق ان کی دولت میں ہر سیکنڈ نوے یورو کااضافہ ہوتا ہے وہ ریشم و اطلس کے کم خواب کے ایسے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن پر سونے اور چاندی کے تاروں سے ایمبرائیڈری کا کام کیا گیا ہو ان کا محل دنیا کا سب سے بڑا اور آرام دہ محل’رائل پیلس‘ کے نام سے مشہور ہے ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمروں پر مشتمل اس محل کے ہر کمرے میں استعمال کی تمام اشیاء پر سونے اور چاندی کی تہہ چڑھائی گئی ہے شاہی محل میں سونے چاندی سے مرصع دو سو ستاون باتھ رومز ہیں۔. ان میں انتہائی شاندار سات سو پچاس سوئٹ ہیں ان میں ہر ایک کی تعمیر پر کم از کم ڈیڈھ لاکھ یورو کی لاگت آتی ہے ۔.حسن البلقیہ کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی ایک سو دس قیمتی گاڑیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں ۔ رولز رائس کمپنی نے سلطان کی درخواست پر ان کی خصوصی کار ڈیزائن کی ہے یہ وہ کار ہے جو سلطان برطانیہ میں قیام کے دوران استعمال کرتے ہیں ان کی یہ خاص کار سونے سے مرصع ہے ان کی ملکیت میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو بتیس گاڑیاں ہیں اس کے علاوہ ان کے جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747بھی شامل ہے جسے سلطان کی ہدایت پر از سر نوسونے سے ڈیزائن اور سونے سے بنی اشیاء سے سجایا گیا ہے ۔.




About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160