مکافات عمل

Posted on at


اولاد ماں باپ کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے . تمام والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھا کھلائیں ، پہنائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے انکی اچھے اور بہتر طریقے سے پرورش کریں تا کہ بڑھاپے میں وہ ان کے مشکل وقت کا سہارا بن سکے .بچے بھی اپنے والدین کے اسس لاڈ  پیار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں فرمائشیں پوری کرواتے ہیں ، ضدیں منواتے ہیں مگر جب والدین کے بڑھاپے کا وقت آتا ہے تو ان کو ایک بوجھ کی طرح گھر کے ایک کونے میں ڈال دیا جاتا ہے ان کے ساتھ نوکروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ نوجوان اولاد اپنے ماں باپ کا تعارف مہمانوں سے کروانے میں سبکی محسوس کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بوڑھے ماں باپ مہمانوں کا سامنا ہی نہ کرنے پائیں تا کہ انکو شرمندہ نہ ہونا پڑے اور بالفرض محال ایسا ہو بھی جاۓ تو کچھ بد بختوں کو یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ یہ تو ہمارے نوکر ہیں . اب ان پڑھے لکھے جاہلوں سے کوئی یہ پوچھے کہ آج جس باپ کو تم پہچاننے سے انکاری ہو کبھی اسی کے کندھوں پر بیٹھ کر تم نے زندگی کے رنگوں کو دیکھنا شروع کیا تھا جس ماں کا چہرہ دیکھنے کو دل نہیں کرتا کبھی اسی کے ہاتھوں سے تم نے پہلا نوالہ کھایا تھا مگر بات تو احساس کی ہے جس سے وہ عاری ہو چکے ہیں 



اس سب کا ذمہ دار میڈیا اور مغربی طرز زندگی ہے جس نے ہم سب کو محبت کے رشتوں سے اتنا دور کر دیا ہے . تمام یورپی ملکوں میں بوڑھا گھر یعنی اولڈ ہومز بنانے کا رواج بہت عرصہ سے ہے .مغرب میں چوں کہ رشتوں کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہوتی اس لئے بوڑھا ہونے کے بعد اولاد اکثر اپنے والدین کو اولڈ ہوم میں داخل کروا دیتی ہے جہاں وہ اپنی زندگی کے دن سسک سسک کر کاٹتے ہیں اور یہ اولاد مختلف تہواروں کے موقع پر ہی اپنے ماں باپ سے ملتی ہے اور کچھ لوگ تو یہ تکلف بھی نہیں کرتے وہ صرف ایک کارڈ یا پھولوں کا ایک گلدستہ بھیج دینا ہی ضروری سمجھتے ہیں. یہ زمانہ ٹیکنالوجی کا ہے اس لئے اب سماجی روایات اور اقدار دم توڑتے جا رہے ہیں . میڈیا نے والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اسی کے بعد یہ اولڈ ہوم کا تصور سامنے آیا . اسی جنریشن گیپ نےاخلاقی اقدار کا جنازہ نکل دیا ہے . آج کی نوجوان نسل فرسودہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا نہیں چاہتی وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی ذاتی زندگی میں خلل پیدا ہوتا ہے چناچہ وہ ماں باپ کو گھر سے نکال کر ہی سکون محسوس کرتے ہیں 



ہر بچے، بوڑھے اور جوان کا حق ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور صلہ رحمی کا سلوک کیا جاۓ اور اس بات میں عمر کی کوئی قید نہیں مگر جن لوگوں کا فرض ہے اس حق کو پورا کرنا ان پر جب ذمہ داری کا بوجھ آ پڑتا ہے تو ان کا رویہ تبدیل ہونے لگتا ہے وہ والدین سے بدتمیزی کرتے ہیں ان کا خیال رکھنا ان کو بھاری لگنے لگتا ہے وہ سمجھتے ہیں کے ان پر اضافی ذمہ داری لاد دی گئی ہے والدین کا وجود ان کو اضافی بوجھ کی طرح لگتا ہے اس لئے اس بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لئے ان کو اولڈ ہوم کی شکل میں ایک آسان حل نظر آتا ہے اور اس بوجھ کو وہاں پھینک کر وہ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں 



مغرب کی دیکھا دیکھی آج پاکستان میں بھی اولڈ ہوم کا تصور پروان چڑھ چکا ہے اور بڑھتے ہوۓ اولڈ ہومز کی تعداد نے اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے کے پاکستانی بھی اسی نقش قدم پر چل پڑے ہیں. گھر میں کسی بزرگ کی موجودگی رحمت کا سبب ہوتی ہے اور ان کا وجود شجر سایہ دار کی طرح ہوتا ہے جس کو یہ لوگ اپنی بیوقوفی سے خود کاٹ ڈالتے ہیں . مگر یہ ناداں لوگ یہ نہیں جانتے کے یہ دنیا ایک مکافات عمل ہے جو وہ آج بوئیں گے کل ان کو وہی کچھ کاٹنا بھی پڑے گا آج اگر یہ لوگ اپنے والدین کو کسی اولڈ ہوم میں زندگی کے دن پورا کرنے کو پھینک آئے ہیں تو کل ان کے بچے ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے کیوں کہ بچے ہمیشہ بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اس بات کا احساس تب ہی ہوگا جب وہ خود کسی اولڈ ہوم کے تنگ سے کمرے میں موت کا انتظار کر رہے ہوں گے مگر تب تک پانی پلوں کے نیچے سے بہ چکا ہوگا 


************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز بڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری  



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160