(محبّت کیا ہے (حصّہ دوم

Posted on at


جیسا کہ حصّہ اول آپ پڑھ چکے ہیں (محبّت کیا ہے) آج آپ کے گوش گزار محبّت کیا ہے کا دوسرا حصّہ پیش کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں آپ اس کو حصہ اول کی طرح پسند کریں گے، اگر آپ نے پہلا حصّہ کسی وجہ سے نہ پڑھ سکیں ہوں تو اس کے لئے لنک دیے دیتا ہوں


محبّت کیا ہے حصّہ اول


محبّت کیا ہے 




محبّتتت تتلی کے پنکھوں سی ہے، جسے تتلی کو مٹھی میں بند کر لو تو اس کے پروں کے رنگ ہتھیلی میں جذب ہو جاتے ہیں- ویسے ہی محبّت اپنا راستہ خود ڈھوندتی ہے، آپ خود کو بدل لیتے ہو لیکن جس سے محبّت کر بیٹھے اس کی برائیوں سے بی محبّت کربیٹھے، محبّت کولوگ اکثر زاوال، شکست، فنا ہونے کا نام دیتے ہیں درحقیقت محبّت تو آپ کو جینا سیکھاتی ہے، محبّت ایک احساس ہے جس کا مظروف دل ہے، اور اس احساس کا تعلق باطن سے ہے اور یہ ایک ایسا احساس ہے جس سے دو ارواح کا آپس میں ایک علاقہ قائم ہوتا ہے، اور اس علاقے اور تعلق کی بنه پر وہ دوارواح ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اور یہی جذبہ ان کے رشتوں کو پروان چڑھانے کا ضامن ہوتا ہے- یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کے افعال و اقوال سے عیاں ہوتا ہے


محبّت کے چونکہ مختلف درجات ہیں اس بینہ پر اس کے ثمرات بی مختلف ہیں


محبّت کا ایک درجہ وہ ہے جو نبی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امّت سے تھی اور یہی محبت کا سب سے اعلی ہے، اس محبّت کا مثالی نمونہ ان راتوں سے ملتا ہے جن میں حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم جاگ جاگ کر معصوم و مغفور ہونے کے باوجود الله کے سامنے گڑگڑا کر اپنی امت کی نجات مانگا کرتے تھے--صرف اپنی امت کی وجہ سے اور اس کا سمرہ امت کی فلاح دارین ہے


( الله ہم سب کو اس محبّت کے کابل بنا دے -آمین )


محبّت کا ایک درجہ والدین کی محبّت، اور محبّت کا یہ رشتہ پاکیزہ ہونے کے ساتھ ساتھ نسلوں کے پروان چڑنے کا ضامن ہے اور یہ درجنتہ محبّت، شفقت والفت کا مظہر ہے


جہاں محبّت کے مختلف درجات زیرتذکرہ ہیں، وہیں ایک درجہ زوجین کی محبّت کا ہے جوکہ نہ صرف ممدوح ہے بلکہ ایک درجے میں ضروری عبادت بھی ہے، اس درجے میں نہ محبّت کے بغیر زندگی کا نہ لطف ممکن -ہے اور نا ہی رشتے کی تقویت


محبّت کے بقیہ درجات میں جس طرح بہن بھائی کی محبّت، دوست کی دوست سے محبّت اور اسی طرح ان سب کے ساتھ محبّت کا ایک اور اہم ترین درجہ مسلمان کی مسلمان سے محبّت اور محبّت کا یہ درجہ ایک دوسرے کی خیرخواہی، مداور اور غمخواری کا پیش خیمہ ہے اور محبّت کا یہ درجہ محمود ہونے کے ساتھ ساتھ مطلوب بھی ہے، جیسا کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے
اے الله میری اور میری والدہ کی محبّت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبّت پیدا فرما دے------ المسلم
اسی درجہ محبّت کی بناہ پر نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے محبّت کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ یہ نا صرف فلاح دنیا کا سبب ہے بلکہ یہ آخرت کی فلاح کا بھی سبب ہے اور اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے


اس سے معلوم ہوا کہ محبّت مجازی کی جو بھی قسم ہو وہ محبت حقیقی کی راہ استوار کرنے کا ذریعہ ہے
-محبّت ایک بہت پاکیزہ جذبہ ہے- جو محبّت پاکیزگی کی بقاہ کا زریعہ نہ بنے لامحلا وہ ضرورت اور انسیت تو ہو سکتی ہے محبّت نہیں


 


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160