نظیر اکبرآبادی کی شاعری - حصہ اول

Posted on at


نام : شیخ ولی محمد
تخلص : نظیر
ولادت : ١٧٣٥
وفات : ١٨٣٠



نظیر اکبرآبادی اردو کے ان چند شاعروں میں سے ہیں سے ہیں جنہوں نے اپنی انفرادیت کے باعث اردو شاعری میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا - نظیر اکبر آبادی کا دور غزل کا دور تھا- یہی وجہ ہے وہ بھی غزل سے دامن نہ چھڑا سکے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے روایت سے انحراف کرتے ہوے نظم کو باقاعدہ طور پر اپنا شعار بنایا- اور روزمرہ کے مسائل انسانی نفسیات، اخلاقیات، معاشرت کی عکاسی اور انسانی رویوں کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا- یوں تو جدید نظم کا باقاعدہ آغاز دور سرسید میں ہوا لیکن اس سے بہت پہلے نظیر اکبرآبادی نے نظم جدید کو متنوع موضوعات بخشنے کے ساتھ ساتھ بیان کا ایک منفرد انداز بھی عطا کیا- لیکن حیرت ہے کہ بعض تذکرہ نگاروں نے نظیر کی شاعری کو اہمیت نہیں دی اور ان کا ذکر کرنا بھی گوارا نہ کیا- حتی کہ دور جدید کے تذکرہ نگار محمد حسین آزاد بھی آپ حیات میں نظیرکو سرے سے نظر انداز کر گئے ہیں اور اگر کہیں ان کا ذکر ملتا بھی ہے تو کچھ اس انداز سے کہ ایک بڑے شاعر کے اوصاف ان میں دکھائی نہیں دیتے
تاہم ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں نے ایک مخصوص طبقے کی ترجمانی کے باعث نظیر کی شاعری کا اہمیت کا اعتراف کرتے ہوے انہیں عوامی شاعر قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظیر محض ایک عوامی شاعر ہی نہیں بلکہ متنوع حیثیتوں کے مالک ہیں- یہی وجہ ہے اردو شاعروں کی صف میں آج انہیں نمایاں مقام حاصل ہے- ڈاکٹر ابوآللیث صدیقی بحیثیت نظم گو ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوے فرماتے ہیں- نظیر کی نظمیں پیمانوں اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ایسی ہیں کہ انہیں دور قدیم میں اردو کا سب سے بڑا نظم گو شاعر قرار دینا مبالغہ نہ ہوگا اور دور جدید میں بھی اقبال اور چند شحصیات کو چھوڑ کر شاید ہی ان کا کوئی مقابل نکلے 
نظیر اکبرآبادی کا تعلق رؤسا سے بھی رہا اور استحصالی طبقے سے بھی انہوں نے ہاتھ نہ کھینچا، نہ چھوٹے کو بڑے سے الگ کرتے تھے نہ بڑے کو چھوٹے سے الگ کر کے عزت دیتے تھے اور نہ ہندو مسلم بٹوارہ کرتے- ان سے نظمیں لکھوانے کے لئے آنے والوں میں رہیس بھی تھے خوانچا فروش بھی اور بھکاری بھی- میں ولی محمد یعنی نظیر اکبر آبادی اپنے عہد کی عمومی زندگی کے ایسے ترجمان ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی- نہ وہ اردو کے روایتی دبستانوں سے وابستہ ہیں کہ کبھی دہلوی اور کبھی لکھنوی کہلوائیں اور نہ درباروں کے قصیدہ گو اور نمک خوار ہیں اور بقول خان شیفتہ " وہ اعلی و عدنا ، عاقل و جاہل قوی و ناتواں ، عاصی سبھی کے دوست تھے وہ زندگی کے ہر لمحہ میں نفس نفیس شریک رہے " گلشن بخار صفہ ٢٣١
١٧٣٥ کے لگ بھگ بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد اور بارہ بھائیوں کی وفات کے بعد زندگی پانے والے نظیر لڑکیوں کی سی وضع قطع رکھتے تھے- انہوں نے سیاسی اور معاشرتی طور پر ایک تباہ حال معاشرے میں آنکھ کھولی- احمد شاہ ابدالی اور نادار شاہ کے حملوں نے انہیں بچپن میں ہی ہجرت پر مجبور کر دیا تھا اور پھر ان کا قیام اس شہر میں رہا جو اکبر کی راج دہانی تھا- جس میں کرپشن کی ویشنو تحریک نے جنم لیا تھا اور جس کی فضاؤں میں میرابائی کے گیت اور بھجن رچے بسے تھے-  یہی شہر آگرہ جس کے زرے زرے سے نظیر کو محبت ہے اور اسی حوالے سے فرماتے ہیں


عاشق کہو اسیر کہو آگرے کا ہے
ملا کہو دبیر کہو آگرے کا ہے
مفلس کہو فقیر کہو آگرے کا ہے
شاعر کہو نظیر کہو آگرے کا ہے


ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پڑھانے میں گزرا- وہ کھل کود میں بھی شریک رہے اور تہواروں میں بھی کرشن جنم میں بھی حصہ لیا اور ہولی کے رنگوں سے بھی کھیلے- کہیں زندگی ان پر مہربان ہوئی اور کہیں اس نے انہیں نے فقیروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا- ایسے میں ان کو شاہی درباروں سے دعوت نامے بھی ملی مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور عیش وعشرت اور سکوں کی زندگی کو ٹھکرا دیا- انہوں نے اپنے طبقے سے رشتہ استوار رکھتے ہوے ان کے مسائل ان کا غم ان کی دلچسپیوں اور ان کے ماحول کی عکاسی کی



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160