کچھ دن پہلے کی بات ہے جب ہماری حکومت نے ایک بجٹ پیش کیا کہ نہ غریب دوست نہ امیر دوست بلکہ معیشت دوست بجٹ جسے انہوں نے پیش کیا سب کو ہی پتا ہو گا سب نے ہی سنا ہو گا . ہر ایک کو ہی پتا ہو گا کہ کس پر کیا آفت نازل ہوئی ہے . کس کو اب کتنی اور مشکلات کا سامنا کرنا ہے .
اگر ہم اس کی دوبارہ بات کریں یعنی کے اپنے بجٹ ٢٠١٤ کی اس کا جائزہ لیں تو اس میں سب سے پہلے تو یہ بات سامنے ہے کہ بجلی ایک تو اتنی نایاب ہے آج کل ویسے ہی گرمیاں ہیں تو بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے پھر بھی اس پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے . اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جیسا کے موبائل ، جنریٹرز ، گاڑیوں پر ، بڑے مکانات پر ، دوائیوں پر ، ملوں پر ، یعنی کے فکتریوں پر وہ بھی سٹیل ملوں پر جن پر ملک کی معیشیت کا انحصار ہوتا ہے لیکن شوگر ملوں پر تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا کیوں کے وہ خود ہماری گورنمنٹ کی جو ہیں .
لیکن ساتھ میں مزدوروں کی اجرت بڑھانے کا بھی کہا گیا جی کے ویسے بھی بہت ضروری تھا اور اگر اس پر عمل بھی کیا جائے . لیکن آج کی مہگائی میں کسی بھی مزدور کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہے کیوں کہ اگر ایک چیز بڑھی ہے تو اس کے ساتھ بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بڑھ گئی ہیں . جہاں اس کے بچے کی کھانسی کا سیرپ ٣٠ روپے میں آ جاتا تھا اب ووہی ٹیکس لگنے کے بعد ٦٠ کا ہو گیا ہے غریب بیچارہ بھی کہاں جائے اور ہماری گورنمنٹ بھی کیا کر سکتی ہے سواے باتوں کے ..