نورانیت مصطفوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

Posted on at



میرے نذدیک یہ سوال ہی جہالت کی پیداوار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نور ہیں یا بشر؟ کیونکہ نور کی ضد بشر نہیں اور نہ بشر کی ضد نور ہے یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی پوچھے بتاو وہ فلاہ شخص کالا تھا یا ٹھگنا ؟ اسے کہ اجائے گا بھئی کالے کا متضاد ٹھگنا نہیں سفید ہے اور ٹھگنے کی ضد کالا نہیںلمبا تڑنگا ہے یا اگر کوئی پوچھے کہ جی فلاں صاحب پڑھے لکھے ہیں یا اپاہج تو اس سے کہ کہا جائے گا ارے نادان پڑھے لکھے کا متضاد جاہل ہے اور اپاہج کا متضاد تندرست و توانا ہے بعینہ اگر حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں کوئی سوال کرے کہ بتاو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نور یہں یا بشر ؟ تو ہم کہیں گیں کہ تمہارا یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ نور کی ضد بشر نہیں ظلمت ہے اور بشر کی ضد نور نہیں جن یا فرشتہ ہے اس وضاحت کے بعد اس سے کہو کہ اب سوال کرو کہ نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نور یہں یا ظلمت؟ یا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بشر یہں یا جن یا فرشتہ


میرے خیال میں احمق سے احمق ترین شخص بھی یہ سوال لب پر نہ لا سکے گا وہ اپنی تمام تر خباثت نفسی وباطنی کے باوجود یہ سوال کر ہی نہیں سکے گا۔


تو نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ظلمت نہیں نور ہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرشتے یا جن نہیں بشر اور انسان ہیں گویا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نور بھی ہیں بشر بھی ہیں یعنی آپ بے مثل اور بے مثال نوری بشر ہیں۔


حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے بلاواسطہ فیض لینے والے ہیں جیسے ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلا پھر اس چراغ سے اگے چمک مہیا کی جائَے


نور کو دو طرح سے سمجھا جا سکتا ہے ایک نور حسی جسے انکھوں سے محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے دھوپ چاندنی روشنی بجلی اور چمک وغیرہ یہ اجالا بھی نور ہی کہلاتا ہے اور اسے ہر نظر والا اور چشم بینا والا محسوس کرتا ہے دوسرا نور عقلی ہے جسے نظر سے محسوس تو نہ کیا جا سکے البتہ عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ نور ہے جیسے علم و فن ہدایت و راہنمائی حقیقت و معرفت کی پہچان سین اسلام کتاب ہدایت تجربات فہم وبصیرت یہ ایسا نور ہیں جو صرف دل بینا کو نظر آتا ہے اور اس نور کو صرف صاحب بصیرت ہی دیکھھ سکتے ہیں جاہل و عالم میں کیا وجہ امتیاز ہے تجربہ اور نا تجربہ کاری میں کیا فرق ہے دین دار اور بے دین دار میں کیا وجہ امتیاز ہے یہ فرق کر سکنا بھی نور ہے نظر کو تو بظاہر ان میں کوئی وجہ امتیاز اور کوئی فرق نظر نہیں آتا دونوں کے اعضاء جسمانی ایک سے ہیں دونوں کا انداز گفتگو و رفتار ایک سی ہے اس لئے ایک جاہل مطلق شخص ان دو حقائق میں فرق نہیں کر سکے گا اس نور کو تو صرف کوئی نور والا ہی پہچان سکتا ہے۔


نور کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خودبھی ظاہر ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ظاہر کرتا ہے یہ صفت نور حسی و عقلی دونوں کی ہیں سورج چاند ستارے بجلی چراغ شمع خود بھی منور ہیں اور دوسروں کو بھی منور کرتے ہیں اندھیرے چھٹ جاتے ہیں ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں یہ نور حسی ہے یہ نور بھی صرف دیدہ بینا والے کو نظر آتا ہے۔


دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے


دوسرا نور عقلی عالم فاضل صا حب فن صاحب تقوی یا دنیاوی اعتبار سے تجربہ کار خود بھی آگاہ ہوتا ہے اور اس آگاہیکے نور کو آگے بھی پھیلاتا ہے اور چراغ سے چراغ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں کیا اس راہنمائی و ہدایت کو نور نہیں کہا جا سکتا اس نور کو بھی وہی دیکھھ سکتا ہے جو اس وادی میں قدم رکھنے والا ہو ایک جاہل مطلق کے لئے اس مینار نور میں اور ایک عام انسان میں کوئی وجہ امتیاز نظر ہی نہیں آئے گی


یہ نور ابو جہل کو، ابو لہب کو ، عتبہ و عتیبہ کو نظر نہیں آیا یہ نور صرف عباس رضی اللہ عنہ کو نظر آیا انہوں نے دیکھا جانا پہچانا اور پسند کیا پھر اسی نور سے ان کی راہیں منور ہویئں ذرا آئے دیکھیں وہ کس طرح اس نور کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں


وانت لما ولدت اشراقت


الارض وضاعت بنورک الافق


فنحن فی ذالک الضیاء و فی النور


سبیل الرشاد نحرق


یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب پیدا ہوئے تو آپ کے نور سے زمین و آسمان کے کنارے چمک اٹھے تو ہم اسی نور سے منور ، روشنی میں بستے ہیں اسی نور سے ہدایت کے راستے تلاش کرتے ہیں 



About the author

160