دنیا میں خوش قسمت ترین لڑکی

Posted on at


کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں- یہ دنیا ایسے ہی کام کرتی ہے- یہ خیال آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی فیشن ماڈل اور انجینئر ٹوریا پٹ کے بارے میں پڑھتے ہوۓ میرے ذہن میں گونج رہا تھا- جس کا تین سال پہلے ایک حادثے میں 65 فیصد جسم جل گیا تھا- لیکن اب وہ ایک کامیاب مصنف اور ایک فعال سماجی کارکن ہے- اس کے اپنے الفاظ میں وہ "دنیا میں خوش قسمت ترین لڑکی" ہے
حال ہی میں هفته وار آسٹریلین وومن میگزین کے سرورق پر‬ ٹوریا پٹ کی تصویر شائع کی گئی ہے، جس میں وہ اپنے چہرے پر ابھرے ہوۓ نشانات کے ساتھ غیر معمولی اعتماد کے ساتھ کھڑی ہے
کاش! ہم کبھی پاکستان میں بھی کبھی کوئی ایسی شاندار قسمت والی ٹوریا پٹ دیکھ سکیں


 


قدرت کبھی ظالم نہیں ہوتی، انسان ظالم ہے- پاکستان میں کسی تیزاب سے متاثر عام انسان کی کہانی اس سے بلکل مختلف ہوتی ہے- الینا احمد جو کہ پاکستان میں تیزاب پھینکے جانے کے شکار لوگوں کو درپش مسائل کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکی ہیں ان کا کنا ہے
یہ لوگ، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں - متاثرین کو نفسیاتی، سماجی اور جسمانی طور پر معاشرے میں مجروع کیا جاتا ہے- ایک تیزاب پھینکے جانے والے انسان کو اس صدمے سے نکلنے میں وقت لگتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ وقت معاشرے میں ایڈجسٹ کرنے میں لگ جاتا ہے،اور اکثر ایسے لوگ معاشرے میں الگ تھلک ہو جاتے ہیں


ہمارے پاس بہترین تنظیمیں ہیں جسے کہ ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن پاکستان (اے ایس ایف)، جو کہ پاکستان میں متاثرہ لوگوں کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں- 5 جون، 2014، اے ایس ایف نے پنجاب اسمبلی میں خواتین کے پارلیمانی اجلاس میں حصہ لیا جس کا مقصد اس جرم کی روک تھام اور ایسڈ اینڈ برن بل میں ترامیم پر تبادلہ خیال تھا- . اے ایس ایف کی چیئرپرسن ویلیری خان نے کمیٹی کو بتایا اس طرح کے معاملات کے لئے استغاثہ کی شرح صرف 35 فیصد ہے جبکہ 65 فیصد کو کبھی انصاف ملا ہی نہیں- اعداد و شمار جنوبی پنجاب کے حوالے سے کافی پریشان کن ہیں، تیزاب پھینکے جانے کے 50 فیصد واقعات جنوبی پنجاب میں رونما ہوے ہیں
ہم میں سمائل اگین فاؤنڈیشن کی بانی مسرت مصباح جسے لوگ بھی ہیں، تنظیم کا مقصد ایسڈ اٹیک وکٹمز کو سہارا دینا اور پھر سے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا ہے


یہ ادارے تو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن باقی کا ملک کیا کر رہا ہے؟


چلیں ہم اپنے آپ کو پہلے دیکھتے ہیں- ہم میں سے کتنوں نے تیزاب سے متاثرہ لوگوں کو دیکھ کر افسوس ظاہر کرنے کے علاوہ ان کی فلاح کے لئے کچھ کیا ہے ؟
کیا ہم تیزاب سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ عام انسانوں جیسا رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی ان کے لئے روزگار یا تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی ان کے چہروں پر ابھرے نشانوں کو دیکھ کر بنا حیرانگی کا اظہار کئے ان سے کبھی مخاطب ہوے ہیں؟



میں نے ایسے واقعات کے بارے میں سنا ہے جہاں مردوں نے ایسڈ برن وکٹمز سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شادیاں کی ہیں لیکن ایسے واقعات پاکستان میں بہت نایاب ہیں


ہمارا میڈیا بھی اس طرح کے رویوں کے لئے یکساں طور پر ذمہ دار ہے- ہمارے ڈراموں میں ازدواجی زندگی، ساس بہو، دوسری شادی، محبت کے بارے میں تو دکھایا جاتا ہے کیا کبھی تیزاب سے متاثر افراد کے لئے کچھ کیا بنایا دکھایا گیا ہے؟
کیا ہماری فیشن انڈسٹری میں کبھی کوئی ٹوریا پٹ دکھائی دے گی؟
کیوں نہیں ایک تیزاب سے جلے چہرے کو برائیڈل فیشن شو میں، شو سٹاپر کے طور پر شامل کیا جاتا ؟
کیوں اس طاقتور درمیانے درجے کا استعمال نہیں کیا جاتا اس سے بھی زیادہ طاقتور پیغام ظاہر کرنے کے لئے؟


آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ساز شرمین عبید چنوئے نے ضرور اپنی دستاویزی فلم سیونگ فیس کے ساتھ کچھ شعور پیدا کیا ہے- پروجیکٹ سیو (اسٹینڈ اگینسٹ ایسڈ وائلنس) ایک اور قابل تعریف تنظیم ہے جنہوں نے چنائے کی دستاویزی فلم سے متاثر ہو کر یہ تنظیم بنائی- ان لوگوں نے ہمارے ذرائع ابلاغ کی تنظیموں کے لئے شاندار مثالیں قائم کی ہیں، لیکن کیا ہمارے دوسرے میڈیا چینلز بھی اس میں کبھی اپنا کوئی کردار ادا کر پائیں گے؟


میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں ٹرریا پٹ اور ہزاروں پاکستانی جلی لڑکیوں میں کوئی براہ راست مقابلہ نہیں ہے- ٹرریا پٹ ایک بااثر سیٹ اپ سے تعلق رکھتی ہے ایک ایسے سیٹ اپ سے جو اس کی ایک سو سرجری سے زیادہ کا متحمل ہے، ایک ایسا معاشرہ جو اس کو ابھرے ہوۓ چہرے کے ساتھ بھی خوش آمدید کہتا ہے
ان پہلوؤں کو ہمارے ملک میں لانا آسان نہیں ہے، لیکن یقینا ایک اہم سبق یہاں سیکھا جا سکتا ہے. سطحی خوبصورتی کے ساتھ مغربی رویہ بے مثال ہے، یہاں تک کہ ہمارا میڈیا بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متاثر ہوتا ہے-اگر وہ لوگوں کو تبدیلی کی طرف ایک راستہ دکھا سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟
ہم دوسرے معاشروں سے منفی طرز عمل اپنا سکتے ہیں، تو کیا ان کے مثبت طرز عمل کو نہیں اپنا سکتے؟
اگر ہماری تھوڑی سی کوشسش ان متاثرین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتی ہے، تو اس میں برا کیا ہے؟
اور کیا ہم ان بدقسمتوں کو ایک بار پھر سے خوش قسمت بننے کا موقع دے سکتے ہیں؟


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160