تعلیم بدل جانے سے دل بدل جاتے ہیں

Posted on at


تعلیم یعنی کے علم کسی بھی ملک کا ایک اہم ذریعہ ہوتا ہے کیوں کے وہاں کی ترقی میں ان جوانوں نے ہی مدد کرنی ہوتی ہے لیکن ہمارے پاس تعلیم تو ہے لیکن اس کا طریقہ کار مختلف ہے ہر ملک نے تعلیم کے لئے ووہی زبان اختیارکی ہے جو ان کی قومی زبان ہے کیوں کے جب تک ہم زبان کو سمجھ نہیں سکیں گے ہمیں اس بات کا ہی نہیں پتا ہو گا کے ہم نے کیا کرنا ہے


 


برصغیر میں جب انگریزوں کی حکومت تھی تو وہاں پر انہوں نے اپنی قومی زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنایا ان کی یہی سوچ تھی کے ان کی حکومت رہے نہ رہے لیکن وہاں پر کچھ ایسے لوگ ضرور پیدا ہو جایں جو ان کے چلے جانے کے بعد بھی انہی کے راستے پر چلیں یہی ہمارے ساتھ ہوا ہے ١٤ اگست ١٩٤٧ کے بعد آج تک ہمیں آزاد ہوے کتنے ہی سال گزر گئے لیکن ہم اپنی تعلیم کے لئے اپنی قومی زبان اردو کو نہ اپنا سکے



غلط انگریزی بولنا نہیں ہے غلط یہ ہے کے اپنی زبان کو قومی زبان اردو کو ہر جگہ فوقیت دینی چاہیے جو کے ایسا نہیں ہے ہمیں ١٢ سال تک تو اس زبان کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں جب ہم اس کو سمجھ لیتے ہیں پڑھ لیتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کے ہمارا دل بھی اپنی قومی زبان کے لئے رہے اپنے وطن کے لئے جان قربان کرنے والا بنے اسی لئے تو کہتے ہے کے تعلیم کہ بدل جانے سے دل بھی بدل جاتے ہیں جیسا ماحول ہو گا ہمارے بچے اسی ماحول کو اپنا لیں گے . ہونا یہی چاہیے کے اردو کو قومی زبان کہنے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنایا بھی جائے ہر جگہ ہر تعلیمی ادارے میں


.



About the author

160