اخلاص و تقویٰ

Posted on at


اخلاص و تقویٰ


اخلاص کا مفہوم


            جو نیک کام بھی کیا جاۓ دنیاوی غرض، نمود و نمایٔش اور شہرت سے پاک ہو اور معاوضے کی غرض سے پاک ہو، صرفاور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے کے لیے  اور اس کی خوشنودی کے لیے کیا جاےاسی کو اخلاص کرتے ہیں .



قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کر کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔


            تو اللہ کی عبادت کر خالص کرتے ہوۓ اطاعت گزاری کو اسی کے لیے ۔ ہوشیار ہو کر  سنواللہ تعالیٰ کے لیے خالص اطاعت گزاری ہے۔  


یعنی اللہ کی اطاعت میں اللہ کے سوا اورکسی کو شریک نہ بنایاجاۓ نہ کسی مخلوق کو نہ کسی نفسانی غرض کو۔



قرآن پاک میں تقریباً سات مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا


            اطاعت گزاری کو اللہ کے لیے خالص کر کہ۔


            ہم جو کام بھی کرتے ہیں اس کی دو شکلیں پیدا ہوتی ہیں ۔ ایک تو اس کی مادی صورت ہوتی ہے یعنی ظاہری اورجسمانی  دوسری اس کی روحانی صورت ہوتی ہے جس کا تعلق ارادہ اور نیت سے ہوتا ہے کسی بھی عبادت یا کام کا اجر نیت یا کام کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوتا۔



اسی لیے اخلاص کے بغیر اسلام میں نہ تو عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ ہی اخلاق و معاملات عبادت کہلاۓ جا سکتے ہیں۔


اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اسلیۓ ہمیں چاہۓ کہ ہم اپنی نیت عباست کے معاملے میں بھی پاک رکھیں۔


تقویٰ کامفہوم


تقویٰ عربی ذبان میں بچنے،  پرہیزکرنے اور لحاظ کرنے کو کہتے ہیں جبکہ شریعت کی اصلاح میں تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کہ ہمیشہ علیم و خبیر ہونے کا یقین پیدا کر کے دل کو خیر و شرکی کی تمیز کی خلش اور خیر کی ظرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کرتی ہے۔


                              


تقویٰ کا اصل تعلق دل سے ہے کیونکہ دل میں ہی نیک اور برے اعمال کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔


ایک احادیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ارشاد فرمایا۔


            ’’ تقویٰ یہاں سے ہے‘‘


اور یہ کہ کر دل کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ دل ہی تمام نیکیوں کا محرک ہے اور وہی مذ ہب کی جان اور دین داری کی روح ہے۔


قرآن مجید کی روشنی میں تقویٰ اور اخلاص:


            قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔


’’اے مومنو اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو جس طرح کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘‘


یعنی مسلمان پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ امنے پیدا کرنے والے سے ڈرے اور اسکی اطاعت کرے اگر وہ اصل اور حقیقی کامیابی چاہتا ہے تو۔


قرآن پاک میں ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے


’’ اے مومنو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو‘‘


یہاں یہ بیان دے کر مسلمانوں پر لازم کر دیا کی کہ وہ اللہ پاک سے ڈریں اور سیدھی بات یعنی سچی اور حقیقت پہ مبنی بات کریں۔


"اللہ تعالیٰ سے ڈرو جتنی تم میں استطاعت ہے۔‘"


اس ارشاد سے مسلمانوں پر اور وضح ہو جاتا ہے کہ کما حقہ ڈرنے سےمراد استطاعت کے مطابق ڈرنا ہے۔


قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔


للہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستہ آسان کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو‘‘۔


اسی طرح ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم اللی تعالیٰ سے ڈرہ گے تو اللہ تعالیٰ تم کو (حق وباطل) میں فیصلہ کرنے والی چیز دے گا اور تم سے تمہا رے گناہ دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے‘‘۔


                                                      


یہ اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کے وہ آپ کو بھی اور مجھے بھی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ اور جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے آپ کوبھی اور مجھے بھی اس کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ ا ور مندرجہ بالا تمام احادیث اور ارشادات کو قبول و منظور فرماۓ۔


آمین 


 



About the author

Haseeb9410

I want to share my ideas , and became a best writer.

Subscribe 0
160