بچے کا مستقبل تباہ مت کریں

Posted on at


ہمارے معاشرے میں  جہاں گھروں کی تزئین و آرائش کرنا جدید قسم و وضع کا لباس پہننا ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ وہیں پر بچے کو انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلوانا جدید دور میں ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے تو یہ وبا امیر گھرانوں میں تھی۔ مگر اب متوسط و غریب طبقہ بھی اندھا دھند انکی تقلید میں اس راہ پر چل نکلا ہے کیونکہ بقول انکے اگر وہ چیزیں ہم نے نہ اپنائیں تو ہماری معاشی و سماجی حیثیت معاشرے میں زیرو ہو کر رہ جاۓ گی۔

دراصل ہمارے ہاں فیشن کی دوڑ میں کچھ اسطرح کچلے جا رہے ہیں۔ کہ انہیں خود پتہ نہیں کہ بھاگتے بھاگتے وہ کونسی منزل پر جا کر رکیں گے۔ اسکے پس پردہ وہ کونسی مجبوریاں ہیں کہ متوسط طبقہ ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ آج سے کافی سال ماضی میں جھانکیں تو اس وقت ہر طرف سادگی تھی ہر طبقہ اپنی اپنی جگہ مطمئن و شاداں تھا پھر حالات بدلے ترقی ہوئی دولت مند طبقہ نے اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو اندرون و بیرون ملک اعلیٰ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرایا تا کہ وہ معاشرے کے اعلیٰ رکن بن سکیں۔

اور جب یہ تعداد بڑھی تو انکا اپنا ایک طبقہ بن گیا جنہوں نے غریب طبقہ اور متوسط طبقہ کو اپنے سے جدا کر دیا۔ دولت کی دوڑ لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ متوسط طبقے نے بھی سماجی و معاشی حیثیت بڑھانے کے لیئے دوڑ شروع کر دی اور انکی نقالی کرتے ہوۓ اپنے بچوں کو انگریزی اسکول بیجھنا شروع کر دیا کہ اسکے بغیر سوسائٹی میں نام و رعب نہیں۔ اب چاہے وہ بچے چل سکیں یا نہ چل سکیں مگر انگلش تو وہ ضرور بولیں گے۔ معاشرے میں دولت مند طبقے کے چھوڑے ہوۓ جراثیم کچھ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ دوسرا طبقہ بھی انکی زد میں آ گیا ہے اور نقالی کرنے پر مجبور ہے۔

والدین کو اپنے بچے کو ایسے ادراے میں داخل کرانا چاہیئے جہاں بچہ با آسانی اپنے تعلیمی مدارج طے کر سکے۔ انگلش میڈیم اسکول کے اخراجات دیگر تعلیمی اداروں سے بہت زیادہ ہیں۔ میں نے کئی ایسے گھرانے دیکھے جہاں شروع میں تو بچوں کو انگلش اسکول میں داخل کرایا گیا اور جب اخراجات کے متحمل نہ ہو سکے تو آخر اٹھا کر اردو میڈیم میں داخل کروایا۔ ایسا کرنے سے نہ صرف بچے کی تعلیمی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ بچے کہ ذہن کو بری طرح ڈھچکا لگتا ہے۔

اور جب وہ اردو اور انگلش میڈیم اسکول کے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں بے پناہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ ذہنی کوفت میں مبتلا ہو کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیئے والدین کو چاہیئے کہ وہ بچوں کو ایسے اسکول میں داخل کرانے سے پہلے اپنی مالی حیثیت کا اندازہ لگا لیا کریں۔ اپنے وقتی شوق کی خاطر بچے کا مستقبل تباہ نہ کریں



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160