حقوق اطفال

Posted on at


 14نومبر 1954کو اقوام مُتحدہ میں اس چیز پر زور دیا گیا بچوں کے حقوق کے حوالے سے سال بھر میں ایک دن مقرر کیا جائے اس قراداد کی منظوری کے بعد 1959سے دُنیا کے بیشتر ممالک میں 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس قرداد کے بعد بچوں کے حقوق کے حوالے سے مُختلف اوقات میں مختلف فیصلے ہُوئے۔بچوں کے حقوق کا ایک معاہدہ 1989میںاقوام مُتحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا اور 2نومبر 1990سے پاکستان میں نافذ العمل ہے۔ آج تک بچوں کے حقوق کے حوالے سے جو بھی قرار داد دیں پیش ہوئی ان کے بنیادی مقاصدتعلیم، انصاف،امن،آزادی،صحت وغیرہ ہیں۔خاندان کے تمام افراد ایک جیسے سلوک کے حقدار ہیں یہ گھریلو سطح کا انصاف ہے۔اگر ایک باپ اپنے چار بچوں میں سے کسی ایک کو فوقیت دے اور بقایا کو نظر انداز کر دے تو اسے غیر مساوی سلوک قرار دیا جاہیگا۔ان بنیادی معلومات کے بعد میں ذکر کرنا چاہوں گا ان اسباب کا جو بچوں کے حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان اسباب میں سب سے بڑا سبب غیر مساویانہ رویے ہیں۔ایک چھوٹی عمر کا بچہ موٹر سائیکل کو انتہائی سپیڈ سے چلا رہا تھا کہ ٹریفک کنسٹیبل نے پکڑ لیا۔بچے نے انتہائی فاخرانہ انداز میں اپنے والد جو کہ پولیس کے ایک اعلٰی عہدے پر فائز تھا کے کارڈ کی کاپی کنسٹیبل کو پکڑاتے ہُوئے چھٹکارہ حاصل کر لیا۔اس طرح کے واقعات کا مشائدہ قارئین نے بھی کیا ہو گا۔اس بچے کی جگہ اگر کسی غریب شخص کا بیٹا بائیک چلا رہا ہو اور کنسٹیبل اسے پکڑ لے تو لا محالہ بچہ چالان سے بچپنے کیلئے اُس کی منت سماجت بھی کرے گا اُس سے تھپڑ بھی کھائے گا اور چالان بھی کراوائے گا، جس سے بظاہر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ قانون کی پاسداری صرف غریب کی ذمہ داری ہے اور باثر اس سے مُستشنا ہیں۔اتفاق سے میں چائے پینے ایک ہوٹل چلا گیا۔ایک ٹیبل پر گاہک بیٹھے ٹیبل مین کی انتظار کر رہے تھے یہ بچہ سادہ لوح دیہاتی تھا اور پُھرتی سے گاہکوں کو توجہ نہ دے سکا، حدِانتظار کے بعد ایک شخص نے ٹیبل پر گلاس مارمار کر ایک نیاءساﺅنڈ شروع کیا جس نے ہوٹل مالک کو متوجہ کیا۔ہوٹل مالک نے اُٹھتے ہی بچے کو چپیڑیں مارنا شروع کر دیں۔یہ لمحات دیکھ کر مُجھے اس بچے کی روتی ہوئی حالت پر ہی نہیں اس کے والدین کی مجبوری پر بھی ترساآ رہا تھا جنہوں نے غُربت کی وجہ سے اس معصوم کلی کو دھکے کھانے پر مجبور کیا۔1959میں پیدا ہونے والے بچے اب بڑہاپے کا سفر طے کر رہے ہیں۔اور مُمکن ہے ان قوانین کے بانیوں میں سے کسی نے بھی اتنی لمبی عمر نہ پائی ہو جو تا حال موجود ہو۔ اس کے بعد کئی حکومتیں عروج اور زوال پذیر ہو چُکی ہیں مگر بچوں کے حقوق کے سلسلہ میں وُہ قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی جس کی توقع میں اجلاس ہوتے رہے۔ باثر کا بچہ اب بھی بااثر اور غریب کا بچہ اب بھی غریب ہے۔ا گر اس حوالے سے غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم عمل ہیں تو انصاف کو حصول کیلئے توسیعی کام کیلئے حکومت وقت کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے۔ان کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے اور بچوں کو ان کے جائزقانونی حقوق دلوانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔

For More Please Visit my Filmannex Page and subscribe Madiha Awan's



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160