عید آئی، خوشیاں لائی مگر۔۔۔۔۔

Posted on at



وہ ساتویں کلاس مےں پڑھتی تھی اور اس کا اکلوتا بھائی چھٹی جماعت کا طالب علم تھا ۔ ےہ دنوں بہن بھائی انتہائی زےرک ، محنتی اور ذہےن تھے ۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس بہن اور بھائی کو سکول انتظامےہ ان کی تعلےمی کارکردگی اور عمدہ اخلاق کی وجہ سے انتہائی قدر کی نگاہ سے دےکھتی تھی ۔ ان کے والد چھوٹی موٹی مزدوری کر کے اپنا اور بچوں کا پےٹ پالتے تھے ۔ ان کے والد اپنی اولاد کو پڑھے لکھے معاشرتی فرد کے طور پر دےکھنا چاہتے تھے ۔ اس مقصد کے لئے ان سے جتنا کچھ ممکن ہو سکتا تھا تگ و دو کرتے رہتے تھے ۔ ان بچوں کے والدےن خود روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لےتے لےکن اپنے بچوںکی انہےں ہر دم فکر دامن گےر رہتی کہ انہےں کوئی تکلےف نہ پہنچے اور زندگی کے کسی لمحے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائےں ۔ ان کی زندگی کے اےام خوش و خرم انداز سے گزرتے رہے اور بچے اپنی پڑھائی مےں ےکسوئی سے منہمک رہ کر اپنے والدےن اور سکول کا نام روشن کرتے رہے ۔ زندگی کے سفر مےں خوشی و غمی کے لمحات کا پاےا جانا ےقےنی امر ہے ۔ اےک روز ان کی والدہ کی صحت اچانک سے بگڑ گئی ۔ انہےں ہسپتال لے جاےا گےا ،خوب دےکھ بھال کی گئی ، لےکن وقت پورا ہو جائے تو زندگی کی گاڑی کو کسی صورت دھکا نہےں دےا جا سکتا ۔ ماں کا سانحہ ارتحال ان بچوں کےلئے کسی سانحہ عظےم سے کم نہ تھا ۔وہ اپنے والد سمےت ہر وقت غم و اندو ہ کی کےفےت مےں مبتلا ہنے لگے ، ےوں ان کی پڑھائی بھی کافی حد تک متاثر ہونی لگی ۔ اسی حزن و ملال مےں ٹھےک اےک ماہ بعد ان کے والد کو بھی دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی اپنے بچوں کو روتا ، سسکتا اور بلکتا ہوا چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے ۔اب تو ان کی زندگی غموں کی آماج گاہ بن گئی۔سکول سے وہ دونوں مسلسل غیر حاضر رہنے لگے۔اساتذہ مےں ان بچوں کے مستقبل کو سنوارنے اور ان کو مشکل کی گھڑی مےں سنبھالا دےنے کا مشورہ ہوا ۔ سکول انتظامےہ نے ان کی فےس معاف کی جب کہ تمام اساتذہ نے مشترکہ طور ان کا تعاون شروع کےا ۔ حقےقی والدےن کی شفقتوں اور محبتوں سے محروم اسی قسم کے بےشمار بچے ہمارے معاشرے مےں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہےں ۔ کوئی ان کا خےال تک رکھنے والا نہےں ۔ جہاں قدم قدم پر مشقتےںہوں ، جہاں تہہ در تہہ مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور جہاں اےک کے بعد اےک پرےشانی ہاتھ باندھے سامنے کھڑی ہو تو زندگی کے اےسے پر خار سفر مےں خوشی کے لمحات کا مےسر آ جانا کسی نعمت سے کم نہےں ۔ عےد ہر سال آتی ہے اور ڈھےروں خوشےاں اپنے ساتھ لاتی ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عےد تو بچوں کی ہوتی ہے ۔ اس اعتبار سے اس مےں کوئی شک بھی نہےں کہ عےد سے منسلک سرگرمےوں سے جو خوشی و طمانےت بچوں کو ملتی ہے عام آدمی اس کا حقےقی ادراک نہےں کر سکتا ۔ نئے کپڑے زےب تن کئے ہوئے ، نئے جوتے پہنے ہوئے ، سر پر نئی ٹوپی سجائے ہوئے، ہاتھوں مےں غبارے اور کھلونے تھامے ہوئے ان بچوں کی خوشی دےدنی ہوا کرتی ہے ۔خوشی و مسرت کے ان مسحور کن لمحات مےں ماں کی محبت بھری گود اور شفقت پدری کو ترستے ہوﺅں سے محبت کے دو بول بول لےنا اور ان ے سروں پر دست شفقت رکھ لےنا بہت بڑی نےکی ہے ۔ عےد سے پہلے پہلے اپنے ارد گرد پھےلی ہوئی ان معصوم کلےوں کی دےکھ بھال کرنا اور ان کی ضرورتوں کو پورا کر کے انہےں بھی اپنی خوشےوں مےںشرےک کرنا ہر صاحب دل انسان کی ذمہ داری ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نجانے کےوں ان جےسوں سے بے رخی برتی جارہی ہے ۔اکثرےت اپنے دھندوں اور اپنے اللوں تللو ں مےں لگی رہتی ہے اور اےسے بےچارے اپنی قسمت پہ رو رو کر آنسوﺅں سے اپنے دل کو ہلکا کرتے رہتے ہےں ۔ والدےن کی صورت مےں سروں پر تنا ہو ا سائبان جب کسی سے چھن جاتا ہے تو زمانے کی کڑی دھوپ اور بھی آگ بن کر برستی ہے ۔ والدےن کے دنےا مےں موجود نہ رہنے مےں بچوں کا کےا قصور ہے کہ ان سے صرف نظر کےوں کےا جاتا ہے ؟ ان کو تو باپ کی سی شفقت اور ماں جےسی محبت چاہئے ۔ انہےں تو وہ لوگ چاہئےں جو ان کےلئے درد کا درماں ہو سکےں ۔ ےہ تو بن کھلے پھولوں کی پتےوں کی مانند ہےں ، ہمےں ان کی آبےاری کرنی ہوگی ۔نہےں تو ےہ بن کھلے ہی مرجھا جائےنگے ۔ انہےں کار آمد بنانا ہے تو قدم قدم پر ان کی دےکھ بھال کرنی ہو گی ۔والدےن کا ساےہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ دنےا کی تمام محبتوں مےں کوئی نہ کوئی غرض ضرور وابستہ ہوتی ہے ، لےکن والدےن کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت مےں کوئی غرض اور لالچ نہےں ہوتی ۔ وہ کتنی ہی سختی کےوں نہ کرےں اس مےں بچے ہی کی بھلائی کا راز مضمر ہوتا ہے ۔ ےہی وجہ ہے کہ ان کے پےار مےں کبھی کمی نہےں آتی ۔ ان کی ہمےشہ ےہی خواہش ہوتی کہ ان کا بچہ اچھا پہنے ، اچھا کھائے اور اچھی تعلےم حاصل کرے ۔ غرض وہ اس کی جملہ ضرورےات پوری کرنے کا ہر دم خےال رکھتے ہےں ۔ زندگی اور موت کا اختےار تو خالق ارض و سماءکے پاس ہے ۔ ےہ حکےم و علےم رب کا نظام اور پورے معاشرے کے ہر فرد کا امتخان ہے کہ اےسے بے سہارا و نادار بچوں کے ساتھ کےا سلوک روا رکھا جاتا ہے ؟ رحمتہ للعالمےن ﷺ کا ارشاد مبارک ہے "مےں اور ےتےم کی کفالت کرنے والا جنت مےں اس طرح (اور آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور بےچ والی انگلی سے اشارہ کےا ) ساتھ ہونگے ۔" انسانی زندگی نشےب و فراز سے عبارت ہے ۔ انسان کو کبھی خوشی نصےب ہوتی ہے تو کبھی غم و اندوہ کی کےفےات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ ےتےموں ، بےواﺅں ،۔ لاچاروں ، کمزوروں اور معذوروں کی مدد کرنا ہر صاحب ثروت و حےثےت مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ عےدےن کے مواقع پر ےہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ےہ عمومی خوشی کے مواقع ہےں ۔رحمت الہٰی تو عطا کے بہانے ڈھونڈتی ہے ۔ عےد کے موقع پر ےتےم کے سر پر دست شفقت رکھا جائے تو ہاتھ مےں آنے والے بالوں کے بقدر نےکےاں نامہ اعمال مےں لکھی جاتی ہےں ۔عےد کے موقع پر ہمےں ان لوگوں کو نہےں بھلانا چاہےئے ، جن کو ےہ خوشےاں مےسر نہےں ۔ تب ہی عےد کا دن ہمارے لئے حقےقی طور پر عےدکا دن ثابت ہو گا ۔ 


For More Stuff Subscribe me @ MadihaAwan



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160