زہن میں بات ڈال دیتے ہیں مجھ کو حسن خیال دیتے ہیں
ان عشاق نام پر ان کے جان و اولاد و مال دیتے ہیں
جب بھی چھڑتا ہے ذکر یکتائی ہم انہی کی مثال دیتے ہیں
ڈگمگاتا سفینہ امت وہ بھنور سے نکال دیتے ہیں
وہ تو وہ ہیں، غلام بھی انکے جان مردوں میں ڈال دیتے ہیں
اک نظر سے سیاہ کاروں کے قلب و قالب اجال دیتے ہیں
وہ ہیں ایسے سخی جو منگتوں کو نعمتیں لازوال دیتے ہیں
انکی بخشش کا ہے عجب انداز لعل گدڑی میں ڈال دیتے ہیں
بے نوا و گدائے مسکین کو خسروانہ جلال دیتے ہین
پاک کرتے ہیں عیب داروں کو ناقصوں کو کمال دیتے ہیں
لشکر حق کو حفظ حق کے لیے تیغ دیتے ہیں ڈحال دیتے ہیں
میں تو برباد ہو چکا ہوتا ہر مصیبت وہ ٹال دیتے ہیں
مجھ کو طارق مری طلب سے سوا
شاہ جود و نوال دیتے ہیں