اسرائیلی درندوں کی کھلی جارہیت اور اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی

Posted on at



جنگ عظیم دوئم میں جرمن کے سربراہ ہٹلر نے یہودی سازشوں کو جمع کر کے فوجی بیرکوں میں بند کر کے جلا کر راکھ کر دیا تھا کسی نے ہٹلر سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا اس نے جواب دیا کہ اقوام عالم میں سب سے زیادہ ذلیل ترین اور سازشی قوم یہودی ہے جنہیں انسانی دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان کا بس چلے تو پوری دنیا میں نفرت اور جنگ و جدل کی آگ بھڑکا دیں ہٹلر نے کہا مجھے جہاں جہاں شکست ہوئی ان میں انہی ذلیل یہودیوں کی سازشیں کارفرماتھیں اسی لئے مجھے یہودی قوم سے سخت نفرت ہے اسلام کے ابتدائی دور میں بھی یہودیوںکی سازشوں نے مسلمانوں کو سخت پریشان کر رکھا تھا غلبہ اسلام کے بعد یہودی کوشہ نشن ہو کر رہ گئے کہتے ہیں کہ جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں کوشہ نشینی کے باوجود جب انہیں موقع ملتا اپنی فطرت سے باز نہیں آتے تھے مسلمانوں کے ساتھ امن معاہدے کر کے اپنے کیے معاہدوںسے پھر جاتے تھے مسلمان جب تک اپنے اسلاف پر قائم تھے یہودی سازشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں لیکن مسلمان جب دنیا کی لذتوں میں پڑے تو اپنے اسلاف سے ہٹ گئے اور کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے اور یہودی سازشوں نے انہیں گھیر لیا دنیا میں بکھرے یہودی 60کے عشرے میں فلسطین میں جمع ہونے شروع ہوئے اور عیسائیوں کی مددوامداد سے اسرائیل نامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اس نوزائیدہ ریاست کو مزید تقویت بخشی اورعربوں کے مدمقابل لاکھڑا کردیا 1967 میں عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل نے ایک گھمسان کی جنگ لڑی جس میں عربوں کو شکست ہوئی یاد رہے کہ عرب ممالک کو اکیلا اسرئیل کبھی شکست نہیں دے سکتا تھا بلکہ اس کے پیچھے عالمی طاغوطی طاقتیں کارفرما تھیں شکست کی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ عرب ممالک پیسے کی فراوانی کی وجہ سے عیاش اور کمزور ہو چکے تھے جس کی وجہ سے ان میں ہم آہنگی نہیں تھی اسرائیل جنگ میں فتح پانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک بدمعاش کا روپ دھار چکا تھا اور عرب ممالک اس سے ڈرے سہمے رہتے تھے اسی طرح عربوں میں باہمی اختلافات پیدا ہوئے جس کا فائدہ اسرئیل کو ہو رہا تھا اسی دوران مصر کے صدر انوارالسادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر کے اسرئیل کے زیر اثر ہو گیا عالمی طاقتوں نے اسرائیل کو اتنا مضبوط کر دیا کہ وہ دفاعی لحاظ سے مشرق وسطیٰ ہولی سولی تھانے دار بن گیا اور اسی طاقت کے نشے میں اسرائیل فلسطینوں کا عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا اور فلسطینی علاقوں میں زبردستی اپنی بستیاں بنانی شروع کر دیں فلسطینی صدر یاسر عرفات نے شروع شروع میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی لیکن عالمی طاقتوں کے دباﺅ پر انہیں بھی اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور یوں ہی فلسطینوں کے صدر بنے رہے ان کی وفات کے بعد ان کے قائم مقام محمود عباس فلسطینی صدر بنے جو مکمل طور پر امریکن نواز ہیں جس کی وجہ سے فلسطینی دوحصوں میں بٹ گئے محمود عباس گروپ اور حماس گروپ جن میں پالیسی اختلاف پیدا ہوئے محمود عباس گروپ چونکہ اسرائیل سے مزاحمت کرنے سے گریزاں رہتا تھا جبکہ حماس گروپ اسرائیلی تسلط کو ہر گز نہیں مانتا تھا جس کی وجہ سے دونوں گروپ علیحدہ ہوگئے اور دونوں میں کشیدگی بڑھتی ہی چلی گئی محمود عباس گروپ اسرائیل سے پنگا نہیں لینا چاہتا جبکہ حماس اپنے حقوق کی خاطر اسرائیلی فورسز سے اکثر و بیشتر ٹکرا جاتا ہے دونوں گروپوں کے باہمی اختلافات سے اسرائیل اور اس کے حماعتی طاغوطی طاقتیں خوش تھیں اور وہ کسی صورت دونوں گروپوںمیں مفاہمت نہیں ہونے دیتی تھیں اور اسی لئے جب بھی فلسطینوں اور اسرائیل میں کبھی جھڑپ ہوتی تو اسرائیل کا سامنا حماس گروپ کرتا محمود عباس گروپ ان کا ساتھ نہ دیتا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے امریکہ نے فلسطینوں اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا انعقاد کیا لیکن اسرائیل ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے فلسطینی دونوں گروپ اکٹھے ہوگئے اور مشترکہ حکومت سازی کا اعلان کیا دونوں گروپوں کا اتحاد اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو انتہائی ناگوار گزرا کیونکہ ان کے اتحاد سے اسرائیل کو خطرہ محسوس ہونے لگا اسرائیلی کی یہ کوشش رہی کہ دونوں گروپوں میں کسی نہ کسی صورت ایک بار پھر اختلاف پیدا کئے جائیں اور ایک منظم سازش کے تحت تین اسرائیلیوں کی گمشدگی کا بہانہ بنا کر حماس پر الزام عائد کر کے غزاہ میں داخل ہو کر بے گناہ فلسطینوں کو شہید کیا اور ایک نوجوان کو اٹھا کر لے گئے اور اسے زندہ جلا دیا جس پر حماس گروپ میں سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا تین اسرائیلیوں کے اغواہ اور قتل کا بدلہ لینے کے باوجود اسرائیلیوں کے بدلے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اور غزاءمیں معصوم شہریوں پر اندھا دھند بمباری کر کے انہیں ناحق شہید کیا گیا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی اسرائیلی درندوں نے غزاءکے معصوم شہریوں پر کھلی جارہیت کر کے انسانی حقوق اور عالمی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دیں جس پر اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی انتہائی افسوس ناک ہے اور بالخصوص او آئی سی کی بے حسی قابل مذمت ہے انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں جو ذرا ذرا سی بات پر دنیا بھر میں واویلہ مچاتی ہیں آج ان کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا اسرائیلی حکومت کا بہانہ یہ بھی ہیکہ غزاءسے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغے گئے ہیں اور ہم اسرائیلی عوام کے تحفظ کے لئے غزاءپر حملے کر دئیے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہیکہ غزاءسے فائر کئے جانے والے سینکڑوں راکٹ کہاں جا گرے اور ان سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا آخر یہ جھوٹ نہیں ہے تو اور کیا ہے فلسطینی معصوم شہریوں کی ہلاکتوں پر اظہار افسوس کرنے کی بجائے اسرائیل سے اظہا ر ہمدردی کرتے ہوئے حماس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل پر راکٹ داغے جائیں گے تو اس کے جواب میں ایسا ہی ہونا چاہئے یہ وقت ہے عالم اسلام کے جاگنے کا اور طاغوطی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا ورنہ یہی حشر ہوگا ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاﺅ گے اے عالم اسلام والوں
تمہاری داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160