جو پاکستان چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو ایک خاص مقصد کے لئے حاصل کیا گیا وہ مقصد تو پورا نہ ہوا پاکستان ایک صحت مند اور ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا قصور پاکستان کے عوام کا نہیں ہے بلکہ اس غلط نظام کا ہے جو پینسٹھ سالوں سے یہاں نافذ ہے اور جس کے نتیجے میں با اثر جاگیر دار اور سرمایہ دار ہماری حکومت اسمبلیوں اور وسائل پر قابض ہیں غلط نظام نے سارے اختیارات چند ہاتھوں میں مرتکز رکھے ہوئے ہیں اور قوم کے سارے وسائل چند لوگ بڑک رہے ہیں ان لوگوں کو بخوبی پتہ ہے کہ پاکستان کن مقاصد کے حصول کے لئے بنا ہے مگر وہ فرسودہ نظام سے چمٹے ہوئے ہیں اس میں صحت مند تبدیلیاں لانے کی کوشش نہیں کرتے وہ کوئی تبدیلی لانے کے لئے تیار نہیں کیوں کہ فرسودہ نظام میں ان کی لوٹ کھسوٹ کی بقاء ہے ان خرابیوں کمے نتیجے میں پاکستان آج معاشی بد حالی کا شکار ہے جبکہ چند افراد نے وسائل ہڑپ کر لیے ہیں اور قومی دولت کا خطیر حصہ بیرون ملک منتقل کر لیا ہے بارہ اکتوبر کی تبدیلی اچانک آئی کیوں کہ کلی اقتدار کا مالک شخص ایک ایسے شخص کو ختم کرنا چاہتا تھا جو ممکنہ طور پر اس کا حریف تھا مگر اس کی حرکات ایک بڑی تبدیلی کا سٹیج تیار کر رہی تھیں ایک نا اہل حکومت جسے بھاری مینڈیٹ کا دعویٰ تھا چند لمحات میں زمین میں ڈھڑام سے گر پڑی اور فوج نے محض چند گھنٹوں میں سارا نظام سنبھال لیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاملات کس طرح درست کیے جائیں اور ایک ایسا نظام نافذ کیا جائے جس سے تمام شہریوں کی سماجی و معاشی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے نہ کہ چند لوگوں کو وسائل ہڑپ کرنے کی اجازت دی جاتی رہے نہ صرف افراد کے ساتھ بلکہ پورے معاشرے کے ساتھ اب انصاف رواد ہو اب اس فرسودہ نظام کو بدلنا ہو گا جو عوام کو انصاف و خوشحالی نہیں دے سکا اس پاکستان کے باشندوں کو جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے چنگل سے نجات دلائی جائے تاکہ آزادی کے ثمرات قوم کے تمام طبقات تک پہنچ سکیں اور بالا دست طبقات ہی قوم کا خون نہ نچوڑتے پھریں اب زمین کاشت کرنے والے کو زمین اور کارخانے کے مزدور کو کارخانے کی ملکیت میں شریک کرنا ہوگا ان اصلاحات کے نتیجے میں دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے گی ان انقلابی اصلاحات کے نتیجے میں زرعی و صنعتی پیدوار میں اضافہ ہو گا اور سماجی نا ہمواری ختم ہو گی چند جاگیر داروں کی وجہ سے لاکھوں مزارعین اور چند سرمایہ داروں کی جگہ لاکھوں مزدور ملکی ترقی کو اپنا نصب العین بنائیں گے بیش بہا زرعی آمدنی جو چند ہاتھوں کی ملکیت ہے اور کارخانوں کی کمائی میں لاکھوں پاکستانی حصہ دار بننے سے دولت اور وسائل کی منصافانہ تقسیم کا مقصد پورا ہو سکے پچہتر فیصد دیہاتی آبادی کا سماجی رتبہ بلند ہو سکے گا اور وہ اپنی ضروریات زندگی کو پوری کرنے میں خود کفیل ہو جائیں گے جاگیردار ان کی قسمت کے مالک نہیں بن سکیں انتخابات میں وہ من مانیاں نہیں کر سکیں اور لوگوں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح اپنے کھونٹوں کی طرف نہیں ہانک کر سکیں وسائل کم ہونے کی بناء پر جاگیردار انتخابات میں زیادہ رقوم خرچ کر کے ووٹیں خریدنے کے قابل نہیں رہیں گے ان کا حلقہ اثر کم ہونے سے حلقے کے پڑھے لکھے زہین نوجوان بھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کر سکیں اختیارات سے محرومی کے بعد جاگیردار انہیں سزا دینے کی پوزیشن میں نہ رہ سکیں الٹا انہیں مکافات عمل اورقدرتی انصاف کا سامنا کرنا پڑے وہ نہ تو اپنے علاقوں اور نہ نجی جیلوں سے لوگوں ڈرا دھمکا سکیں ان اصلاحات سے دہی علاقوں میں انصاف کا دور دورہ ہو گا کارخانوں میں مزدوروں کو حقوق ملکیت ملنے سے ان کا رتبہ ملازم سے مالک کا ہو جائے گا وہ نفع و نقصان میں اپنے آپ کو حصہ دار سمجھتے ہوئے اور زیادہ محنت کریں گے اور قومی پیدوار میں اضافہ ہو گا اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطانق اجرت اور منافع میں حصہ ملے گا اس کا سابقہ استحصال ختم ہو جائے گا اس کی خوشحالی معاشرے کی خوشحالی ثابت ہو گی جس کے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے جاگیردار اپنی جاگیروں سے محرومی کو غیر اسلامی اقدام قرار دیتے رہے ہیں مگر افسو ہے کہ کوئی اس کی حمایت نہیں کرے گا وہ کافی استحصال کر چکے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ وسائل اور ذمہ داریوں کی تقسیم کی جائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ختم کیا جائے پہلے ہی ہمارا ملک امیر حکمرانوں غریب حکومتوں اور محروم عوام کا منصوبہ بن چکا ہے اسے مزید ایسی قابل رحم حالت میں نہیں چھوڑا جا سکتا چند خاندانوں کو ملک و قوم کی تقدیر کا مالک نہیں بنایا جا سکتا جس ملک میں اسی فیصد سے زائد لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزرنے پر مجبور ہوں وہاں چند لوگوں کو ہمارے قومی وسائل ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس لئیے پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام گزشتہ67 سالوں سے قطعی مختلف ہونا چاہیے چند خاندانوں کی اجارہ داری کے بجائے ساری عوام اپنے وطن کی تقدیر کی مالک ہونے چاہیے ہر شہری کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے سرمایہ، اثر و رسوخ، ذات برادری کی اجارہ داری ختم ہو جس کی جگہ زہانت و قابلیت،استحقاق تصور کیا جائے نئے نظام میں کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو کسی عہدے کے لئے پیش کر سکے بلکہ عوام اسے انتخاب سے پہلے متعلقہ شخص کی قابلیت،زہانت،کردار رکھ رکھاؤ کا جائزہ لیں جس کے بعد وہ صحیح فیصلہ کریں جن لوگوں کو وہ اسمبلیوں میں منتخب کریں وہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بھی عوامی مفادات کا تحفظ کریں نہ کہ سابق نمائندوں کی طرح اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں پرانے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اسلام فرد کی فلاح کے لئے مثبت تبدیلیوں کا حامی اسلام ناانصافی کے خلاف ہے طویل نا انصافی نے با الآخر ختم ہونا ہے اسلام انسانی عزت و توقیر،سماجی انصاف اوت خوشگوار ماحول میں وسائل،جائیداد آمدنی کی منصافانہ تقسیم کو یقینی بنانے پر ترغیب دیتا ہے اور اجارہ داری، رشوت ستانی اور بدعنوانی کی مخالفت کرتا ہے اسلامی اقدار کے مطابق یہ مقاصد انشاء اللہ جلد حاصل کیے جائیں گے۔