آخر کب حوا کی بیٹی محفوظ ہو گی

Posted on at


معاشرے میں جب تک حوا ماں کی بیٹی کی حیا کی چادر محفوظ ہے وہ معاشرے ہر شر سے محفوظ ہوتا ہے مگر جس معاشرے میں حوا ماں کی چادر کی پامالی ہو تو وہ معاشرہ ہر طرح کی شر بدآمنی اور مختلف بیماری میں جکڑ جاتا ہے اور اس کی لپیٹ میں معاشرے کا ہر فرد آ جاتا ہے چاہیئے وہ اس برائی کے فعل میں مبتلہ ہو یا نا ہو۔


انسان کو خدا نے اشرافل مخلوق بنایا ہے یعنی تمام دنیا کے مخلوق سے بہتر مگر جیسے خدا نے انسان کو پیدا کیا تو انسان کے اندر نفس بھی ڈال دی اور یہی وہ نفس ہے جس کی وجہ سے انسان کی خواہیشات مزید بڑھ جاتے ہیں اور جو انسان اپنی خواہیشات یعنی اپنے نفس کو خدا اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر گزارتا ہے سو اس نے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کی اور جو انسان اپنے نفس و خاہیشات کو اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں گزارتا تو اس کا نا دین سہی نا آخرت اور وہ انسان اپنے نفس و خواہیشات کی تکمیل کے لیئے درندگی کی ہر حد پار کر جاتا ہے اور وہ معاشرے کے لیئے ایک ناسور اور درندہ بن کر جاتا ہے


 



 


یہی وجہ ہے ہم ان درندوں کی درندگی کی داستان سنتے ہیں اور آئے روز ان درندگی اور وحشت مختلف روپ میں بڑھتی جا رہی ہے۔یہ ویی لوگ ہیں جن کی وجا سے کسئ معاشرے میں حوا کی بیٹی محفوظ نہیں ہیں اور یہی درندے ہر وقت اپنے موقعہ کی تاک میں بیٹھے رہتیں ہیں اور موقعہ میلتے ہی حوا کی بیٹی کو اپنی حوس کا شکار کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ فخر محسوس کرتیں ہیں مگر حقیقت میں انہوں نے ایسی گہنونی حرکت کی ہوتی ہیں جس سے اس نے اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کی ہوتی ہے جس سے وہ اس وقت بے خبر ہوتا ہے اور افسوس اس حوا ماں کی بیٹی کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے برباد کی اور ایسا کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ یہ بھی کسی بھائی کی بہن یا بیٹی پے جیسے اس کی بہن یا بیٹی اس کے اپنے گھر میں پے اگران کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا توان پہ کیا بیتتی ہے۔


 




یوں تو ہم نے حوا کی بیٹی نازک کلی کا خطاب دیا ہے مگر ہم اس کلی کو خود مسل دیتے ہیں۔ افسوس ہم بھول جاتے ہیں کہ حوا کی بیٹی کے کئی روپ ہوتے ہیں ان کا ایک روپ ماں کا ہوتا ہے جس کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے اور بہن بیوی بیٹی جیسے کئی پاک اور عزت دار روپ ہوتیں ہیں مگر افسوس انسانی حوس ان رشتوں کو بھول چکی ہے۔


ہمارے معاشرے میں اس کی بڑھتی ہوئی وجہ لاقانونیت اور قانون کا کمزور ہونا ہے ویسے حکومت آئے روز اس مسلئے کی روک تھام کے دعوئے ضرور کرتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں کونکہ جو بھی اس درندگی میں پکڑا جاتا ہے تو ہمارا قنون اتنا کمزور ہوتا ہے یا پھر قانون کی اداروں کی ملی بھگت سے آسانی سے وہ ددندہ چھوٹ جاتا اور اسے وہ ان کاموں میں عادی ہوا ہوتا ھے اور پھر معاشرے میں مل کے اپنی درندگی جاری رکہتا ہے۔سو اس ناسور کومعاشرے سے مکمل ختم کرنے کے لیئے حکومت کو مزید قوانین بنانے پڑیئنگے اور سختی سے اس پہ عمل درمد بھی کرنا ہو گا۔


شکریہ


 



160