زندگی کے چند حسین لمحات سیروتفریح میں حصہ چہارم

Posted on at


           گلگت کو۱۹۷۰ ضلع کا درجہ دیا گیا اور صوبہ کا ہیڈکواٹر بھی ضلع گلگت ہے۔اس کے شمال میں سکردو استور اور دیامر جب کے جنوب  میں ضلع گیزر ہے۔۱۹۹۸ کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی۲۴۳۳۲۴ہے۔ضلع گلگت میں گلگت جیگلوٹ دایور نالٹار اور نومال جیسے مشہور علاقے آتے ہیں۔ضلع گلگت میں پاکستان کی ساتویں اور دنیا انیسویں بلند ترین چوٹی دیستالگیر سر ہے۔دریائے خنجراب دریائے ہنزہ اور دریائےگلگت جیگلوٹ سے چھ کلومیٹر کے فاصلہ پر دریائے سندھ میں جا گرتے ہیں۔



 


گلگت میں کی مقامی زبان شینا ہے اور یہ علاقہ مذہبی فرقوں میں بٹا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اکشر شیعہ سنی فسادات ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ پورے صوبے اور بعد میں آس پاس کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔جس میں بہت قمیمتی جانے ضائع ہوتی ہے اور بہت سرکاری عمارات کو نقصان ہوتا ہے۔




ضلع گلگت کے بلند وبالا عمارات ہوٹلز مارکیٹیں اور وسیع وعریض بازار دینا کے ترقیاتی ممالک کے شہروں سے کم نہیں۔یہاں زندگی کی ضروریات کی تمام چیزیں آپ کو ملیں گی۔اسی لئے یہاں ملک بھر سے اور پوری دنیا سے سیاح آتے ہیں۔یہاں کے سب سے قریبی سیاح مقامات میں شہزادی سرویسہ کا باغ اور دریا گلگت کے کنارے موجود چنار باغ ہے۔وقت کی کمی کی وجہ سے ہم پہلے روز صرف سرویسہ شہزادی کے باغ اور چنار باغ ہی جا سکیں یہ دونوں بہت خوبصورت اور سرسبز ہے اور شہزادی سرویسہ باغ میں صدیوں پرانا شہزادی سرویسہ کا عکس آج بھی پہاڑ میں نمایا نظر آتا ہے۔





آگلے روز ہم وادی نالتار کی طرف گئے اس علاقے کو صرف جیپ ہی جا سکتی تھی یہ وادی گلگت اور ہنزہ کے درمیان میں واقع ہےاور گلگت سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے۔ اس وادی میں دومشہور گاوں ہے ایک گاوں نالتارپینی ہے جو خوبصورت تراشے ہوئے پہاڑوں اور اس کی جنگلات میں موجود جنگلی جانوروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔اور دوسرا گاوں نالتار بالا ہے۔ہم بالتار پینی سے ہوتے ہوئے نالتار بالا پہنچے۔نالتار بالا سے تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جھیل ہے جیسے بھاسکری جھیل کہتے ہیں اس جھیل کی سڑک کچی تنگ اور پہاڑوں کے درمیان میں سے ہے موسم سرما میں برف کی وجہ سے اس جھیل تک رسائی ناممکن ہے۔یہ بہت خوبصورت جھیل ہے چاروں طرف پڑی برف اس کی خوبصورتی کو اور دلکش اور حسین بناتی ہے۔شام تک وہاں موج مستی کے بعد ہم واپس گلگت شہر آئے ۔




رات کو ہم سب دوستوں نے فیصلہ کیا ہم صبح کہیں دورنہیں جائینگے بس صرف گلگت بازار میں گھومیںگے اور آرام کریںگے سو ہم نے ایسا ہی کیا صبح ہم کونداس کے بازار گئے ویاں تک جانے کے لئے لکڑی سے بنا ہوا پل سے گزرنا تھا جو دریا گلگت کے اوپر واقع تھا اس پل کا ایک کمال تھا جب چند لوگ اس کے اوپر سے گزرتے تھے تو یہ ہلتا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی ٹوٹ کے گرے گا جیسے تیسے کر کے ہم کونداس بازار پہنچ گئیں وہاں سے کچھ دیر گھومنے کے بعد ہم واپس آئے اور گلگت ائرپورٹ گئیں جو بہت خوبصورت اور عالمی ائرپورٹ کے عین مطابق تھا۔وہاں سے ہم سب سیدھے ہوٹل آئیں اور آرام کیا کیونکہ اگلے رور ہمیں ضلع ہنزہ ناگیر جانا تھا۔



 


شکریہ



160