زندگی کے چند حسین لمحات سیروتفریح میں حصہ اول

Posted on at


آج کل کے دور میں انسان کی زندگی بہت مصروف ہو کر رھ گئی ہے مگر ہم دوستوں نے فاریکس مارکیٹ سے چنددن دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور پورا کام ٹیم کے دوسرے ممبرز کے حوالے کر کے زندگی کے چند لمحوں کو قدرت کے نظاروں کو دیکھنے اور سیروتفریح میں یادگار بنانے کا فیصلہ کیا اس کے لئے ہم نے ایک ماہ کا عرصہ متعین کیااورہم سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم سب سے پہلے مانسہرہ سے ہوتے ہوئے ناران کاغان اور پھر گلگت بلتستان کے ہر ضلع کے ہر علاقہ کے تفریحی مقامات جائےگے۔




مانسہرہ سے ایک طرف سڑک ناران کاغان کو جاتی ہے جب کے دوسری طرف شاہراہ ریشم جو شنکیاری کوہستان سے ہوتا ہوا گلگت اور پھر چائنا کے بارڈر سے جا ملتا ہے۔ہم نے ناران کاغان کی سڑک پکڑی اور ہماری گاڑی سڑک کو چیرتی ہوئی ایک گھنٹے کی مسافت کے باد ہم بالاکوٹ پہنچ گئے بالاکوٹ اس وادی کا دروزہ سمجھا جاتا ہے اور یہ علاقہ ۲۰۰۵کے زلزلے میں مکمل تباہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات ہوئی اور گھر دکانیں مارکیٹیں اور سڑکیں مکمل طور پہ تباہ ہو گئی تھی لیکن اب ایک بار پھر ملکی اور غیر ملکی بڑی تعداد میں امداد کی وجہ سے متاثرہ خاندان ازسرےنو بحال ہوئے ہیں۔




ناران سات ہزار فٹ کی بلندی پہ واقع ہے اور اسی وجہ سے یہ علاقہ گرمیوں میں بھی کافی ٹھنڈا ہوتاہے۔یہاں کے جنگلات سیاہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور اس کے پہاڑ جنگلات سے ڈھکے ہوئے ہیں ایک طرف جنگلات کو چیرتی ہوئی سڑک تو دوسری طرف دریائے کنہار کا خوبصورت پانی انسانی عقل کو دنگ کر کے رکھتا ہے۔تھوڑے سے فاصلہ پہ جا کہ ہم نے دریا کنہار میں مچھلیوں کا شکار کا فیصلہ کیا لیکن اس کے لئے سب سے پہلے اجازت نامہ لانا پڑتا تھا اور اس اجازت نامے کے بعد پوری وادی میں جب چاہو پچھلیوں کا شکار سکتے ہو سو پم نے مقامی انتظامیاں سے اجازت نامہ حاصل کیا اور پھر دو بجے کے بعد سے شام چھ بجے تک مچھلوں کا شکار کیا اس دوران ہم نے کافی مقدار میں مچھلیاں پکڑ لی۔




اسی دوران راستے میں ہماری شام ہو گئی تھی تو رات کے دس بجے ہم ناران پہنچ گئے اسی لئے رات کے اندھرے میں مذید ہم کسی تفریحی مقامات پر نہیں جا سکتے تھے تھوڑی دیر بازار میں کچھ ضروری سامان خریدنے کے بعد ہم نے اپنے ٹینٹوں کو ایک کھیت میں ڈالا اور آرام کا فیصلہ کیا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور پر سکون ماحول میں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہماری انکھ لگی اور جب انکھ کھلی تو صبح کے نماز کا وقت ہو چکا تھا۔



 


اگلے روز صبح ناشتہ کرنے کے بعد جھیل سیف الملوک جانے کا پروگرام بنا تو اس کے لئے ہمیں کسی جیپ کا بندوبست کرنا پڑا کیونکہ جھیل سیف الملوک ناران سے اگے پہاڑوں میں واقعہ ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں کچی سڑک اور پکڈنڈیوں سے گزرنا تھا جیسے ہمیں جیب ملی ہم سیف الملوک کی طرف نکل پڑے کچھ گھینٹوں کی مسافت کے بعد ہم جھیل سیف الملوک پہنچ گئے سیف الملوک ایک شہزادہ تھا جو سرویسہ شہزادی کے ساتھ اس مقام میں آیا اور اس دور کے دیوں سے ایک لڑائی لڑی تھی اور کامیابی حاصل کی تھی اس وجہ سے اس جھیل کا نام جھیل سیف الملوک رکھا گیا یہ جھیل گول اور بہت خوبصورت تھی اور ملکی اور غیر ملکی بہت سے سیاح اسے دیکھنے کے لئے آئے تھے شام تک وہ موج مستی کرنے کے بعد ہم واپس ناران آئے اور وہاں ہم نے دوسری رات گزری۔



شکریہ



160