زندگی کے چند حسین لمحات سیروتفریح میں حصہ دوم

Posted on at


اگلے روز پروگرام کے مطابق ہمیں ضلع دیامر جانا تھا ضلع دیامر گلگت بلتستان کا مغرب کی طرف سب سے پہلا ضلع ہے۔اسے صوبہ گلگت بلتستان کا دروازہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں داخل ہونے کے لئے پورے پاکستان سے صرف دو راستہ ہے ایک راستہ ضلع کوہستان یعنی شاہراہ ریشم سے ہوتا ہوا اور دوسرا راستہ ناران سے یوتا ہوا ضلع دیامر میں داخل یوتا ہے۔ضلع دیامر گلگت بلتستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے کیونکہ یہ ضلع مختلف چھوٹے بڑے دروں پہ مشتمل ہے اور چلاس ضلع دیامر کا ہیڈکواٹرہے۔



ناران سے ایک راستہ لولوسر کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا بابوسر ٹاپ پہ جاتا ہے پہ ٹاپ ضلع مانسہرہ اور دیامر کی بارڈر ہے اور بابوسر ضلع دیامر کا حصہ ہے یہ ٹاپ بلکل پہاڑ کی چوٹی پہ ہے اسی لئے موسم سرما میں شدید برف باری کی وجہ سے آمدورفت کے لئے بند ہوتا اور موسم گرما میں اسے آمدورفت کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔بابوسر ٹاپ موسم گرما میں بھی انتہائی سرد ہوتا ہے اسی لئے یہاں کے مقامی لوگ موسم گرما میں یہاں آ جاتے ہیں۔پہ علاقہ قدرتی سبزے اور پھولوں سے بھرا پڑا ہے اس ٹاپ کا سب سے خوبصورت قصبے کو گڑداس کہتے ہے ۔گڑداس کے آس پاس کے پہاڑوں کو دیکھ کے بے حد افسوس ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے مقامی لوگوں نے اس کے اس پاس پہاڑوں پہ جو جنگلات تھے اسے بڑی بےدردی سے کاٹا ہے یہ ہی پہاڑ ہے جو قدرتی جنگلات سے ہمیشہ ڈھکے رہتے تھے اب اسے کوئی دیکھے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہاں صدیوں سے کوئی جنگل تو دور کی بات کوئی درخت تک بھی نہ ہو یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر سال سیلاب کی وجہ سے بڑی تباہی ہوتی ہے۔



سو ہم گڑداس سے ہوتے ہوئے چلاس پہنچے چلاس سے ایک راستہ گلگت کی طرف اور ایک ضلع کوہستان کی طرف جاتا ہے اور کوہستان والی طرف ضلع دیامر کے اور مختلف درریں آتے ہے جن میں مشہور تھور نالہ داریل اور تانگیر کے علاقہ ہے۔سب سے پہلے ہم تھور نالہ گئے یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے روڈ کے ایک طرف پہاڑوں پہ جنگل ہی جنگل تو دوسری طرف تھور نالہ کا خوبصورت نیلے پانی والا نالہ سب سے پہلے سہری اور پھر ہم پریکا پہنچے۔اس علاقے کا شہتوت اور اس کے نالے موجود مچھلیاں بہت مشہور ہے۔کچھ دیر وہاں روکنے کے بعد ہم ضلع کوہستان کا علاقہ شتیال آ گئیں کیونکہ وہاں سے دیامر کے علاقہ داریل اور تانگیر کو راستہ جاتا تھا ہم نے شتیال میں رات گزاری کیونکہ بابوسر سے چلاس اور پھر تھور نالے سے شتیال پہنچنے سے پہلے راستہ میں ہماری شام ہو گئی تھی چونکہ یہاں کا راستہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے رات کو سفر کرنا مناسب نہیں تھا۔ 


 


اگلے روز ہم تانگیر چلے گئے تانگیر کو جانے والی سڑک پکی مگر بہت تنگ ہے اسے پہاڑوں کو کاٹ کے بنایا گیا ہے ایک طرف تانگر کا خوبصورت نالہ تو دوسری طرف پہاڑوں کو چیرتی ہوئی جنگلات کے درمیان میں گزرتی ہوئی سڑک بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔پہاں ہوٹلوں کا کوئی انتظام نہیں تھا تو ہم چار بجے وہاں سے واپس آ گئے اور ایک بار پھر شتیال آ کے رات گزاری۔



اگلے روز صبح ہم داریل کی طرف گئے یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے صاف و شفاف پانی جنگلات اور ہر طرف پھلوں کے باغات کو دیکھ کے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہاں کے باغات مٰیں سب سے مشہور آلوچا خوبانی آنگور اور سیب کے ہیں۔وہاں کچھ دیر موج مستی کے بعد ہم چلاس کی طرف آ گئے تاکہ چلاس میں رات گزارنے کے بعد آگل روز ہم گلگت بلتستان کے اور علاقوں کی سیر و تفریح کر سکیں۔



 


شکریہ



160