زندگی کے چند حسین لمحات سیروتفریح میں حصہ پنجم

Posted on at


اگلے روز ہم صبح نماز پڑھ کر ضلع ہنزہ نگرکی طرف نکل پڑے۔ضلع ہنزہ نگر کو جانے والی سڑک پکلی اور کشادہ ہے۔ضلع ہنزہ نگر ہنزہ اور نگر دونوں کو ملا کے بنایا گیا ہے۔یہاں پر سب سے پہلے راجگی کی حکومت تھی جسے راجہ کہتے تھے مگر ۱۹۷۴ میں ذوالفقارعلی بھٹو حکومت پاکستان کے وزیراعظم تھے تو اس نے اس نطام کو ختم کیا اور یہاں ہنزہ اور نگر دو الگ الگ ریاستیں بنادی۔




وادی ہنزہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اس کے شمال مغرب میں دریا ہنزہ بہتا ہے جس کی لمبائی ۲۵۰۰میڑاور اونچائی ۸۲۰۰ فٹ ہے۔ہنزہ کا کل رقبہ ۷۹۰۰ سکورہے۔علی آباد ضلع ہنزہ نگر کا ہیڈکوارٹر ہے۔بلتیت اور التیت سیاحت کے لئے مشہور علاقے ہے کیونکہ یہ علاقے کے اردگرد اولتراسر راکاپوشی بھوجاگر دوناسر۲ گنٹا ہنزہ پسو بوبلیموٹین جیسے بلند ترین چوٹیاں ہے جن سب کی لمبائی ۶۰۰۰میٹر اور اونچائی ۱۹۶۸۵فٹ ہے۔کریم آباد وادی ہنزہ کا ہیڈکوارٹر ہے اس علاقے کو بلتیت بھی کہتے ہے یہاں زیادہ پرنس آغاخان کے ماننے والے ہے جنہیں اسماعیلی کہتے ہیں۔یہاں کی پوری آبادی پڑی لکھی ہے اسی لئے یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی شرح۱۰۰ فیصد ہے۔




وادی نگر کی لمبائی ۲۴۳۸ میٹر اور اونچائی۷۹۹۹فٹ ہے نگیر خاص وادی نگر کا ہیڈکوارٹر ہے اور اس کی آبادی ۱۰۰۰۰۰۰ہے ۔سیاحت کے لئے مشہور علاقے گولمیت ہوپر حیسپر نگیر خاص سومایار اسکرداس فیکر میناپین سیکندرآباد چالٹ اورچاپروٹ ہے کیونکہ یہ علاقے راکاپوشی دیران سپانٹیک اور اولتراسر کے دامن میں واقع ہے۔اس علاقے میں شیعہ فرقے کے لوگ رہتے ہے۔




جیسے تیسے کر کے ہم ہنزہ پہنچے ہر طرف سبزہ کھیت اور پھولوں کے باغات جیسے دیکھ کے انسان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔پوری دینا میں ہنزہ کے آلو سیب انگور چیری مشہور ہے اور یہاں کے لوگوں کا روزگار بھی یہاں کے پھلوں اور سبزیوں سے وابستہ ہے۔شام تک گھوم پھرنے کے بعد ہم نے آرام کیا۔




صبح ہم عطاآباد جھیل کی طرف نکل پڑے یہ ۴ سال پہلے پہاڑی تودہ گرنے سے بنی ہے جس سے چینا سے پاکستان کو آنے والی سڑک کافی متاشر ہوئی ہے اور اس جھیل کے دوسری طرف رہنے والے لوگ کشتیوں سے آتے جاتے ہے۔یہ جھیل دیکھنے میں بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔عطاآباد جھیل سے واپس آ کے ہنزہ میں رات گزاری۔




اگلے روز ہم شمشال گاوں کی طرف گئے یہ گاوں شمشال جھیل کی وجہ سے بہت مشہور ہے یہ چینا اور پاکستان کے بلکل بارڈر پہ واقع ہے۔اس جھیل کے آس پاس برف اور اس کا پانی بلکل نیلہ ہےاور یہ دل کی مانند تھی جیسے دیکھ کے ایسا لگ رہا تھا کہ انسان نے اپنے ہاتھوں سے کوئی تصویر بنا کے چھوڑی ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت جھیلیں دیکھی مگر اس جیسی خوبصورت آج تک نہٰیں دیکھی۔دل نہیں مان راہا تھا وہاں سے واپس آنے کو بلآخر شام ہوئی تو مجبورآ ہم واپس ہنزہ آئے۔




اگلے روز ہم روش جھیل کی طرف گئے یہ جھیل روش پری کی چوٹی پہ واقع ہے جس کی لمبائی۵۰۹۸میٹر ہے اور یہ دنیا کی بلند ترین جھیل ہے اس جھیل کے آس پاس کے پہاڑی سلسلہ نگر سے جا ملتا ہے اور یہاں پورا سال برف رہتی ہے اس لئے ہمارا زیادہ دیر تک وہاں رکنا مشکل تھا اور تھوڑی دیر رکنے کے بعد ہم واپس ہنزہ آ گئے۔ہم ایک ہفتہ ہنزہ میں رہیں اور ہفتہ بعد ہم غذر کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔



شکریہ


 



160