نوجوان وطن، نظام تعلیم اور علم کی شمع

Posted on at


 مملکت خداداد پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد کسی جغرافیائی ضرورت نسلی تعصب یاارضی کیفیت پر نہیں بلکہ مکمل طور پر نظریاتی دینی اور روحانی ہے یہ وہ الفاظ ہیں جو تشکیل پاکستان سے لے کر اب تک ہر نوجوان وطن نے کئی بار پڑھے اور سنے ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا تعلق ہماری زندگی میں صرف پڑھنے اور سننے کی حد تک ہے وہ نظریہ کونسا ہے اور اس کا عمل ہماری زندگی میں کتنا ہے اور عمل ہے بھی کہ نہیں وہ نظریہ ہے ایک ایسے اسلامی ملک کا حصول جہاں ہر شخص اپنی زندگی اسلامی روایات و اقدار کے مطابق بسر کر سکے آج ہماری پستی کی وجہ کچھ بھی ہو مگر ایک ٹھوس حقیقت اسلامی روایات سے ہٹ کر چلنا بھی ہے یقین اسد بات کا منکر تو کوئی نہیں ہو گا کہ ہماری اسلامی روایات اور اقدار بہت بلند ہیں اور نہایت باوقار ہیں ہم ایک شاندار اور پروقار ماضی کے مالک رہ چکے ہیں مسلمان قوم ہر دور میں ہر طرح کے علوم وفنون کے بانی رہے ہیں ہمیں بھی اپنے شاندار ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اور اپنے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کےلئے تعلیم کے اعراض و مقاص کا تعین کرنا ہوگا کیوں کہ کسی ملک کا تعلیمی نظام ہی اس ملک کے اقدار و روایات کا آئنہ دار ہوتا ہے اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا اسلامی نظام تعلیم انگریزوں کے دےے گئے نظام تعلیم سے بہت گناہ بہتر ہے لیکن کسی دوسرے کی اچھی بات کو دیکھو تو اپنانے کی کوشش ضرور کی جائے مگر کسی دوسرے پر انحصار کرنا اور اپنی روایات سے ہٹ کر چلنا تو وہی بات ہو جاتی ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال ہی بھول گیا ہمیں ایسے نظام تعلیم کو نافذ کرنا ہو گا جو نوجوان وطن کے لئے صرف ڈگری کا حصول نہ ہو بلکہ انہیں ان نوجوانوں کی صف میں لا کھڑا کرے کہ جنکہ منزل چراغ نیلی فام سے بھی آگے ہے اور ستارے جن گردراہ ہوں انہیں ایسا با عمل اور با کردار نوجوان بنا دے کہ جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور پھر چاند کے سامنے پوری آب و تاب سے چکمتے ہیں آج ہمارے نوجوانوں کے لئے تعلیم کے حصول کے دو ہی مقاصد ہیں ایک ڈگری کا حصول اور دوسرا حصول روزگار لیکن علم عمل کے بغیر اس طرح ہے کہ جس طرح جسم روح کے بغیر ہمارے پاس تعلیم تو ہے مگر علم شعور اور آگاہی نہیں ایک شاعر کا یہ شعر بھی ہمارے حسب حال ہے 
کتابیں ہاتھ میں ہیں آگہی کا نام نہیں 
چراغ ہاتھ میں نابینا آدمی کی طرح
 
 ادھر لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدان انتخابی اصلاحات اور انقلاب لانے کی تو بہت باتیں کرتے ہیں اور اس سب کے لئے لانگ مارچ دھرنے اور نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں مگر تعلیمی اصلاحات کے لئے کسی کے کانوں کو جوں تک نہیں رینگتی چلیں انتخابی اصلاحات کی بات ٹھیک ہے لیکن اگر انقلاب لانا ہی ہے تو تعلیم کے زریعے لاﺅ کیوں کہ آج کے پاکستان کی اہم ضرورت ایک ایسا تعلیمی نظام ہے جو کہ ہمیں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہی نہیں بلکہ اعلیٰ اور پختہ کرداروں کے حامل جوان عطا کرے جنکے ملک دشمن کی ہر تدبیر اور ترغیب شکست کھا جائے وہ ملک دشمن کے لئے نا قابل تسخیر قلع کی مانند بن جائیں ہمارے نوجوان وطن ناصرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں بلکہ ایک اعلیٰ سیرت اور بلند اخلاق و کردار کے مالک بھی ہوں ایک انگریزی مفکر نے کیا خوب کہا ہے 

If you loss wealth,you loss nothing.if you loss health,you loss somthing.but if you loss character,you loss everything.

توں اے ملک کے نوجوانوں تمہیں اپنے اندر زور حیدرؓ فقر بو ذرؓ صدق سلیمانیؓ کی سی خصوصیات پیدا کرنی ہوں گی تمہٰں اپنے اندر وہ اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے ہوں گے جن کے آگے دنیا کی ساری دولت ماند پڑ جائے اور ان کو اپنا کر ہی تم اپنے اعلیٰ ار ارفع مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہو اور وہ اوصاف کردار کی پختگی امانت،صداقت ،راست بازی، عدالت وشجاعت اور فقر و قناعت کے ہیں یہ سارے اوصاف وہی ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے تمہارے اباءکو عطا کےے اور پھر انہین اوصاف کی بدولت ہم وہ مقام حاصل کریں گے جس کی تفسیر اقبال نے کچھ یوں بیان کی
خودی کو بلند کر اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 

Thanks!

For more Stuff Subscribe me at Bitlanders

MadihaAwan

Or join me on Facebook

Madiha Awan's

 



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160