باو عزیزی کیسے پیدا ہوتے ہیں

Posted on at




محمد باو¿ عزیزی نے جب خود کو جلا یا تھا تو اس وقت تیونس کے صدر زین العابدین تھے ،زین العابدین 1987 سے تیونس کے صدر چلے آرہے تھے، صدر زین العابدین طاقتور صدر تھے ہر طرف انکا رعب و دبدبہ تھا، فوج اور ایجنسیاں ان کی مٹھی میں بند تھیں ، میڈیا ڈر کے مارے لب نہیں کھولتا تھا، زین العابدین نے اپنے مخالف سیاستدانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا ہو ا تھا، اورکچھ سیاستدان جلا وطنی کی زندگی کاٹ رہے تھے ، زین العابدین کے پورے دور حکومت میں کسی نے ان کے خلا ف ایک جملہ بھی نہیں شائع کر وایا،تیونس کا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا، تیونس کی پارلیمنٹ بھی کلمہ حق کہنے سے محروم تھی، پارلیمنٹ میں بھی صدر کی تعریفیں ہوا کرتی تھیں، زین العابدین کی بیوی اور اس کے رشتہ داروں کے ذاتی جہاز تھے ، ملکہ لیلیٰ بن علی کے اسراف کا عالم یہ تھا کہ ملکہ ناشتہ ایک ملک میں کر تیں اور شام کا کھانا دوسرے ملک کھایا کر تی تھیں ،ملکہ کے ذاتی خزانے میں صرف ڈیڑھ ٹن سونا موجود تھا، جب کہ صدر کی طرف سے باقاعدہ تمام کمپنیوں اور اداروں کو یہ آرڈر جاری کیا گیا کہ وہ اپنی دولت کا ایک خاص حصہ ملکہ کے اکاو¿نٹ میں ہر ماہ جمع کروایا کریں ، اربوں کھربوںکا مالک یہ خاندان سکون کی زندگی بسر کر رہاتھا کہ باو¿ عزیزی کی موت نے ان کیطاقت چھین لی اور سکون غارت کر دیا،



باو¿عزیزی کی موت اس خاندان پہ بجلی بن کے گری اور سب کچھ جلا کے رکھ دیا،سر زمین تیونس زین العابدین کے خاندان پہ تنگ ہو گئی انہیں مجبور ہو کر بھاگنا پڑا ، سر دست ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ باو¿ عزیزی کون تھا ؟اس نے خود کو کیوں جلایا ؟محمد باو¿ عزیزی تیونس کا رہنے ولا ایک خوبرو اور نیک سیرت جوان تھا، باو¿ عزیزی کی بدقسمتی کہ جب وہ پیدا ہو ا تو اس کے چند ہی سالوں بعد وہ یتیم ہو گیا ، اس کی والدہ نے اس کی پرورش کر نے کے بجائے اسے تقدیر کے حوالے کر دیا ، باو¿ عزیزی کھیلنے کو دنے کی عمر میں غم اٹھانے لگ گیا، لوگوں نے اسے کھیل سمجھ کے خوب کھیلا ، کبھی اس کے جذبات سے کھیلا گیا اور کھبی اس کے جسم سے ، وہ دو وقت کی روٹی کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا ، کسی مہربان نے اسے بتایا کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور پھر سرکاری نوکری کرے، کچے ذہن کو جھوٹے خواب دکھائے گئے اس نے فوراً اپنی توجہ تعلیم کی طرف کرلی وہ صبح اسکول جاتا اور شام کو ہوٹلوں میں کام کرتا ، اس نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، محمد باو¿ عزیزی نے جب گریجویشن کی تو اب اسے نوکری کی فکر ہوئی وہ نوکری کی تلاش میں ڈگریا ں اٹھائے ہر سرکاری محکمے میں گیا ، لیکن وہاںکی افسر شاہی نے اسے گھاس نہ ڈالی اور اس سے چائے پانی کا مطالبہ کیا


 وہ ہر ایک کو اپنی کہانی سنا تا کہ کیسے اس نے تعلیم حاصل کی ہے، کئی لوگوں کے سامنے اس نے اپنی یتیمی کا رونا بھی رویا لیکن پتھر دل موم نہ ہوئے مجبور ہو کر اس نے ریڑھی لگانے کا فیصلہ کیا، وہ منڈی سے فروٹ خریدتا اور ریڑھی پہ رکھتا پھر گلی کوچوں میں فروٹ بیچنے کی صدائیں لگاتا ، اس کے جاننے والے اس کا مذاق اڑاتے اور پوچھتے کہ ڈگریاں حاصل کر کے کیا حاصل ہو ا؟ تعلیم حاصل کر کے فروٹ ہی بیچنا تھا تو اتنے سال اور پیسے کیوں ضائع کیے؟ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر سخت جملے سہہ لیتا ، کچھ مدت تک یہ سلسلہ چلتا رہا ایک دن اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں ریڑھی بازار میں لگایا کروں ، بازار میں آمدن بھی زیادہ ہو گی اور کام بھی جلدی ختم ہو جائے گا، یہ سوچ کے اس نے ریڑھی بازار میں لگانا شروع کر دی لیکن یہاں پہنچ کے وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ، پولیس کے جوان آتے اور اس سے پوچھے بغیر فروٹ اٹھا کے لے جاتے اور کبھی اس کی ریڑھی کو الٹا دیتے ، یہ سارا دن فروٹ کے اٹھانے اور صاف کر نے میں صَرف کر دیتا اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ کچھ بولنے سے قاصر تھا ، بالآخر تنگ آکے اس نے وہی فیصلہ کیا جو کمزور ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں ،اس نے پٹرول پمپ سے پٹرول کی بوتل خریدی اور تیونس کی پارلیمنٹ کے سامنے جا کر پٹرول کی بوتل خود پر ایسے انڈیلی جیسے شرابی شراب منہ میں انڈیلتے ہیں ، پٹرول کا اس پر گرنا تھا کہ اس نے ماچس کی تیلی سے خود کو آگ لگا کر اپنا قصہ تمام کر دیا، اس نے موت کو گلے لگا کے دکھوں کی زندگی سے نجات حاصل کر لی، باو¿ عزیزی خوش قسمت تھا کہ اس کے تڑ پ تڑپ کر مرنے کو ایک کیمرہ مین نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا اور پھرچپکے سے باو¿ عزیزی کی وڈیو کو فیس بک پہ ڈال دیا ، فیس بک پہ اس وڈیوکا آنا تھا کہ پورے ملک میں آگ لگ گئی ،باو¿ عزیزی کی موت نے تیونس کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ، گلی کوچوں سے لوگ اٹھے اور زین العابدین سے اقتدار چھین لیا، زین العابدین کی افسر شاہی کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا، باو¿ عزیزی کی موت کے اسباب کئی ہیں لیکن موٹے دو ہی سبب ہیں ، ایک افسر شاہی اور دوسرا پولیس کی زیادتیاں، یہ دو چیزیں باو¿ عزیزی کی موت کی ذمہ دار ہیں


 اگر افسر شاہی اسے نوکری دے دیتی تو اس نے کبھی موت کو گلے نہیں لگانا تھا، موت کو کون پسند کر تا ہے؟آج ہمارے ہاں یہی دوطبقے باو¿ عزیزی جیسے جوان پیدا کر رہے ہیں ،آپ سرکاری اداروں میں نوکریوں کے لیے جائیں تو کوئی آپ کو گھاس بھی نہیں ڈالے گا، تازہ مثال آپ ہزارہ یونیورسٹی کی لے سکتے ہیں ، میں کئی ناموں سے واقف ہو ں جن کی بھر تیاں ہو چکی ہیں، صاحب ثروت اور طاقت ور لوگوں نے اپنے بندے بھرتی کروالیے ہیں ، کاش ہماری افسر شاہی سمجھ لیتی کہ ماو¿ں نے کیسے کانوں کی بالیاں بیچ کر اولاد کو پڑھایا ہے تو وہ کبھی غریبوںکو نوکریوں سے محروم نہ رکھتی ، میری اس کالم کے ذریعے وی سی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ میرٹ کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں اور غریبوں کی دلجوئی بھی کریں ، اور ان لوگوں کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک کئی سالوں سے کنٹریکٹ اور فکسڈ کی بنا پر کام کر رہے ہیں ایسے لوگوں کو بھی اگر مستقل کر دیا جائے تو انہیں روز روز کے غم سے نجات حاصل ہو جائے گی، ایسے لوگوں کی بھی کیا زندگی ہے جن سر پر ہر وقت کنٹریکٹ کے ختم ہونے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، اگرایسے لوگوں کو مستقل نہ کیا گیا اورغریبوں کو نوکری نہ دی گئی تو کئی باو¿ عزیزی آپ کے رویّے کی وجہ سے جنم لیں گے ،اور دوسرا ہماری پولیس اپنا قبلہ ٹھیک کرے پولیس بھی ریڑھی بانوں پہ ظلم کر رہی ہے ، دو دن قبل لاری اڈا سے ایبٹ آباد جا رہا تھا کہ سَنی بیکری کے سامنے ایک ٹریفک پولیس کا افسر ایک غریب ریڑھی والے کو مار رہا تھا ، وہ بار بار منت کر رہا تھا لیکن طاقت کے نشے سے سرشار اس پولیس افسر نے غریب کی ایک بھی نہ سنی مجھے نہیں معلوم یہ ڈرامہ کتنی دیر تک چلتا رہا لیکن یہ منظر میرے ذہن میں محفوظ ہو گیا ، ٹریفک پولیس کا کام چالان کر نا ہے غریبوں کو مارنا نہیں ،طاقتور لوگوں کو اپنے نبی کا کردار یاد رکھنا چاہئے ، حضور اکرم نے غریبوں کے ہاتھوں کو چوما تھا ، آپ اگر ہاتھ چوم نہیں سکتے تو غریبوں پہ ہاتھ تو مت اٹھائیں،انہیں زندگی سے محروم تو مت کریں، کاش ہمارے صاحب اختیار لوگ غریبوں پہ بھی ہاتھ رکھ لیں ، اگر نہیں رکھیں گے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ غریب جب اٹھ کھڑے ہوئے تو انہیں بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ 



For more Subscribe me 


Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160