عوامی حقوق کا تحفظ

Posted on at



 



یہاں تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ سرسبز و شاداب باغیچے ، نرم و ملائم عمدہ قسم کی خو بصورت گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کی نرم و نازک پتیاں ہر نظارہ کرنے والے کا دل موہ لیتی   تھیں ۔ اس علاقے کی تزئین و آرائش پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ یہاں پودوں کی نگہداشت کرنے والے باغبان بھی اپنی شناخت کرانے کے پابند تھے کہ غیر ضروری افراد اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوں ۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا حساس ترین "ریڈ زون "کہلائے جانے والا علاقہ گزشتہ کئی روز سے ایک انوکھا منظر پیش کر رہا تھا ۔ پریڈ گراﺅنڈ ، شاہراہ دستور اور ڈی چوک سمیت ریڈ زون میں شامل کئی ایک دیگر مقامات دھرنوں سے پہلے غیر متعلقہ افراد کےلئے ممنوعہ علاقے شمار ہوتے تھے لیکن احتجاجی مظاہرین کو ریڈزون میں داخل ہونے کی کھلی چھوٹ دی گئی ۔ اختلاف رائے ، احتجاج ، ہڑ تال ، جلسے ، جلوس اور دھرنے جمہوری معاشروں کا خاصہ ہیں بشرطےکہ چند ایک قانونی اور اخلاقی ضابطوں پر سختی سے کاربند ہوا جائے ۔ لیکن جس احتجاج سے ریاست کے ادنیٰ مفادات یا دیگر افراد کے جان و مال کو ذرہ برابر بھی ٹھیس پہنچے ایسا طرز عمل کسی صورت بہتر نہیں ۔ با لآخر وہی ہوا جس کا خطرہ گزشتہ کئی روز سے محسوس کیا جارہا تھا ۔ حساس عمارتوں کی جانب بڑھتے مظاہرین کے سیکیورٹی فور سز کی جھڑپیں جاری ہیں۔ سینکڑو ں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ، نجانے یہ معاملہ کہاں جا کے رکتا ہے ۔



جمہوری معاشروں میں احتجاج کا حق سب کو حاصل ہوتا ہے جبکہ جمہوریت پسند ریاستوں میں ہر سیاسی جماعت اپنے مطالبات ملکی ، قانونی ، سیاسی اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے نہ صرف پیش کر سکتی ہے بلکہ رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں اپنا ہمنوا بنا سکتی ہے ۔ لیکن اپنے مطالبات کے منوانے کےلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آنا غیر جمہوری اور غیر آئینی رویہ ہے ۔ بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام ہر دور میں مختلف لیڈروں کے نعروں ، وعدوں اور دعوﺅں پر یقین کر کے اپنا تن ،من اور دھن ان پر وار دیتے ہیں لیکن ماضی کی تلخ یادیں بتاتی ہیں کہ عوام کے مقدر میں صرف تکالیف اٹھانا ، مشقتیں برداشت کرنا اور صعوبتیں جھیلنا ہی ٹھہر ا ہے ۔ اچھے وقتوں کی امیدےں دل میں بسائے اپنے من پسند لیڈروں کو کامیابی دلانے سے فوائد سمیٹنا اب ہر کس و ناکس کا کام نہیں رہا ۔ بلکہ فوائد سمیٹنے والا ہر جگہ تقریباً ایک خاص طبقہ ہی ہوا کرتا ہے ۔ جنہیں خوشامدیوں کا ٹولہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ گزشتہ دنوں بھی اسلام آباد کی دھرتی پر ہم نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے رہنماﺅں کو دیکھا کہ ان لیڈران نے عوام کی زندگی کی مشکلات دور کرنے کی تحریکیں چلانے کے بلند و بانگ دعوﺅں کے ساتھ انہیں جمع کیا ۔ خوش نما نعروں سے ان کے قلوب کو گرمائے رکھا ۔ 



انہیں مشترکہ طور پر تکالیف برداشت کرنے کی یقین دہانیاں کراتے رہے لیکن حقیقت سامنے آنے پر اپنے جاںنثاروں کو برستی بارش میں موسم کی سختیاں جھیلنے کےلئے اکیلا ہی کھلے میدانوں میں چھوڑ کر کوئی پر آسائش گھر کی جانب محو سفر ہوا تو کوئی تمام اقسام کی سہولیات سے مزین خصوصی طور پر تیار کردہ کنٹینر میں محو استراحت ہوا ۔ دونوں لیڈورں کی جانب سے عوام کا جم غفیر اکٹھا کرنے کے چند مقاصد تو سمجھ میں آتے ہیں جو وہ علی الاعلان حکومت کو للکارتے ہوئے مستقل دہراتے رہے ہیں لیکن یہ بات بالکل سمجھ سے بالا تر تھی کہ دن کے وقت عوام کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی اور راتوں کو ہزاروں کا مجمع ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ڈانس ، دھمال اور بھنگڑا ڈالنا یہ کیا منظر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔ موسیقی کا کثرت سے استعمال اور طبلے کی تھاپ پر نوجوان نسل کاموج مستی میں آ جاتا یہ احتجاجی دھرنے تھے یاکوئی میوزیکل شوز ؟ ان احتجاجی مارچوں نے سیاسی جماعتوں کی اخلاقی ابتری کا پھول کھول کے رکھ دیا ہے ۔ یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی جماعت ہے یا اوباشوں کی ؟ نظم و ضبط ، تہذیب و تمدن اور تربیت سے عاری یہ نوجوان مرد و زن کیسی زندگی بسر کر رہے تھے ؟ 



ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا معاشرہ اور مشرقی روایات بے باک خواتیں کی سر عام اس اچھل کود اور نوجوان لڑکوں کی ہلڑ بازیوں کو کسی صورت قبول نہیں کرتیں ۔کسی جماعتی جلسے اور جلوس میں اس جماعت کا ترانہ پڑھنا تو معمول رہا ہے لیکن باقاعدہ طور پر جلسے یا مظاہرے کو کسی میوزےکل شو میں تبدیل کرنے کا سہرا تحریک انصاف کے سر ہے ۔ انہی میوزیکل شوز کی بنا پر گزشتہ کئی روز سے اسلام آباد کی فضائیں متعفن رہی ہیں ۔اس صورت حال پر ہر صاحب دل انسان کا دل کڑھتااور دھڑکتا رہا لیکن جن کے دلوں میں شیطانیت رچی بسی ہو انہیں کون سمجھا سکتا ہے ؟ سیاست کو فحاشی سے پاک ہونا چاہئے کہ ہر صاحب عقل و خرد کے دل کی آواز ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست چیز ہی کوئی اور ہے جبکہ فحاشی و عریانی ایک الگ قسم کی بدبودار غلاظت ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دھرنوں کی موجودہ سیاست میڈیا کے بل بوتے پر زندہ ہے ۔ حکومت کو میڈیا کے منفی کردار کا ضرور محاسبہ کرنا چاہئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے لیکن کسی کو احتجاج وغیرہ کی آڑ میں عوامی زندگی کو مفلوج کرنے کی قطعا ً اجازت نہ دی جائے ۔ 


For more Subscribe me 


Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160