سیاسی کشمکش میں صحافی زیرِ عتاب کیوں ؟

Posted on at


پچھلے چند ماہ میں خاص طور پر ۱۴؍ اگست سے جاری ہنگامہ خیز سیاسی صورتِ حال اب پر تشدد رُخ اختیار کر رہی ہے۔ ہفتہ کی رات اور اتوار کی صبح اسلام آباد کے ریڈ زون اور شاہراہِ دستور پر جو ہولناک واقعات پیش آئے ان پر ہر حساس پاکستانی سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ سیاسی کارکنوں پر پولیس کا تشدد اور زہریلی گیس کی شیلنگ ایک المیہ اور قابلِ مذمت فعل ہے۔ حالیہ سیاسی کشمکش کے تناظر میں اس طرز کے واقعات کا منطقی اور انتظامی جواز پیش کیا جا سکتا ہے تاہم جو امر صحافی برادری کے لیے زیادہ تشویشناک اور پریشان کن ہے ،وہ انتظامی مشینری کی طرف سے بالخصوص اور سیاسی کارکنوں کی طرف سے بالعموم صحافیوں اور میڈیا پر تشدد اور طعنہ زنی ہے۔ ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے تو اس قضیہ کے تین پہلو ہیں۔ایک تو یہ کہ صحافی اور میڈیا سے متعلق انتظامی اور حکومتی روّیہ، دوسرا سیاسی کارکنوں کی عدم برداشت اور تیسرا صحافیوں اور چینل مالکان کی اپنی غیرجانبداری۔

انتظامی اور حکومتی حوالے سے صحافیوں پر پڑنے والے دباؤ اور روا رکھے جانے والے بہیمانہ سلوک کی ایک جانی پہچانی تاریخ ہے ، تاہم اس میں حیران کن امر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بزرجمہوروں کی احمقانہ چشم پوشی ہے۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ اب پرنٹ میڈیا کا وہ دور گزر چکا جب جبر و استبداد کے زور پر مرضی کی خبریں لگوائی جاتیں اور قومی اخبارات کے صفحات پر سیاہی پھیر دی جاتی تھی۔ براہِ راست نشریات کے دوران حکومتی مشینری کی کوئی غلطی چھپ نہیں سکتی۔ پرویز مشرف کی آمریت بھی براہِ راست نشریات کی اجازت دینے کے باوجود اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہی او راپنے ہی خنجر سے موت کے گھاٹ اتری۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہو چکی ہے کہ نیم خواندہ سیاسی طبقے کو ہنوز براہِ راست نشریات کی ستم گری کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ دوسری حقیقت بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔ نوجوان سیاست دانوں اور نئے سیاسی لیڈروں کے منظرِ عام پر آنے کے بعد گالی گلوچ ، عدم برداشت اور الزام تراشی کے رویے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔ یہ نوجوان پالیٹیکس کا خاصہ ہے تاہم اسے جلد از جلد سیاست کی پختہ کاری تک پہنچانا ضروری ہے کیونکہ سیاسی کارکنوں اور ان کے جلد باز رہنماؤں کی ناپختگی کا سب سے بڑا نشانہ صحافی اور آزادیٔ اظہار کا تصور بنتا ہے۔ ثانیاًیہ کہ صحافت آزادیٔ اظہار ، اصلاحِ احوال اور ذمہ داری پر مبنی تصورات میڈیا کے بڑھتے ہوئے کمرشل ازم کی زد میں ہے۔ چینل مالکان کے ذاتی مفادات اور ریٹنگ (مقبولیت کی شرح) کی بیہودہ جنگ میں سچی صحافت کے اجلے بدن پر جو داغ لگے ہیں، اس نے صحافت سے وابستہ افراد کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ غیر جانبداری جو صحافت کا بنیادی اصول تھا اب کمزوری اور بوریت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ مقبولیت کی دوڑ میں صحافی خبر تلاش کرتے کرتے خود خبر بن جاتے ہیں۔ چینل مالکان کی خوشنودی اور ناظرین کی توجہ کے حصول کے لیے رپورٹر حضرات کو گولیوں اور شیلنگ کی بوچھاڑ میں کودنا پڑتا ہے جو غیر ضروری اور صحافتی و انسانی اقدار کے منافی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتوار کی صبح پولیس کے لاٹھی چارج کانشانہ بننے والے صحافی بنیادی حفاظتی لوازمات یعنی ماسک ، پانی، بلٹ پروف جیکٹ اور ہلمٹ سے بھی محروم تھے۔ کیا اربوں روپے کمانے والے چینل مالکان اپنے کارکنوں کو چند ہزار روپے کی حفاظتی اشیاء بھی فراہم نہیں کر سکتے۔
اس بھیانک صورتِ حال میں صحافتی تنظیموں کو دھڑے بندی اور سیاسی جماعتوں کی لا حاصل پشت پناہی کے بجائے مل بیٹھ کر اپنے مظلوم ساتھیوں کی مدد و حمایت کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160