جنوب مشرقی ایشیا میں کپڑوں کی مصنوعات: ویتنام

Posted on at

This post is also available in:

سن ٢٠٠٧ سے، ڈی ائی بی نے کہا میں نے ہانگ کانگ اور چین  کا سال میں ٤ بار سفر کیا اپنے کاروباری تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ایشیائی کپڑے کی مصنوعات بنانے والے اور ایشیا میں صارفین کے دفاتر سے۔ اج ٦ سال کے بعد، مجھے ایسا لگتا ہے ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا، درحقیقت کپڑے کے کاروبار میں ہم نے کئی عظیم کپڑے کی ملیں اور عظیم لوگوں جیسے کہ یونگ سیم کم کوریا سے، مسٹر موزارٹ ٹائیوان سے، مس نیری جیسے لوگوں کو جانا۔ اور ان کے ہمراہ کام کرنے والی ٹیم کو بھی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ انتہائی محنت سے کام کرنے والے ہیں اور امریکہ سے صارفین کی ضرورت اور کیے گئے وعدہ کوبخوبی سمجھتے ہیں۔

گلوبل اپیریل مینوفیکچرنگ پر، ہمیں اپنے لیدر فیکٹری ٹوئن سٹی کیساتھ کام کرنا بہت پسند ہے۔ جو کہ مکمل طور پر چائینیز ہے، اس کی ٹیم شاندار ہے، گونگزو میں ان کے مالک ٹومی ایک انہتائی اچھا انسان ہے جس سے ہم مل سکتے تھے۔ وہ ہر وقت کی سیلز کی بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ نئے ترقی پسند طریقوں پر کام کرتا رہتا ہے۔ وہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم ان لوگوں سے ملنے کے معاملے میں خوش قسمت تھے، مضبوط تعلقات کے لیے (گوانشی) کا شکریہ، ہماری کوشش کامیاب تھی۔

یقیننا، ہم کئی اور لوگوں کو بھی ملے، جو کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے  لیکن یہ ایک خطرات لینا تھا بین الاقوامی طور پر ایک یکسر مختلف کلچر، زہنیت، اور ذبان سے نا ہم اہنگی کی وجہ سے۔ ذبان کی رکاوٹیں اہم ترین مسائل میں سے تھیں۔ جس کی کوئی وضاحت ہی نہیں تھی، اس لیے جو یہی کہہ سکتے تھے “ یہ چین ہے “

 

بہر حال، ہم ایک نقطہ پر پہنچے، ہم نے نئے مواقع دیکھے، اور اپنے کورین پارٹنر مسٹر کم کے ذریعے، جیسیکا لی سے ملے جو ہیوجن اپریل کی جنرل منیجر ہیں، ایک کورین فیکٹری ہو من ویتنام کی۔ دونوں کمپنیاں (الفاتیکس، اور ہیوجن) کورین ہیں ایک مکمل پیکج کے لیے ( کپڑا۔ ٹرمز اور تیار کپڑے) ہمارے بہترین صارفین کے یے جن میں انتھروپولوجی، فری پیپل، کیلون کلین، دی لیمیٹڈ اور کئ  اور، اپریل میں ہم ویتنام میں دو مزید فیکٹرییوں کووینا فیشن، اور ہائی وینا اپریل کو ملنے جا رہیے ہیں، جو کہ ٣٠٠٠ کاموں میں مہارت رکھتے ہیں، جیکٹس، سوٹ، نرم کپڑے۔

چین سے باہر کاروبار بڑھنا ملازمین کی تنخواہوں کی وجہ سے بھی تھا جو کم سے ١٥٪ کم تھیں ۔ جنوب مشرقی ایشیا اب اپنی معاشیات چین کی طرح بنا رہا ہے ١٠-١٥ سالوں سے۔ اس سے ان کا خرچ ١٥٪ کم ائے گا جیسے چین نے کیا۔ اس سے وہ اپنے اندرونی پیداوار کو بھی پال سکیں گے۔





About the author

syedahmad

My name is Sayed Ahmad.I am a free Lancer. I have worked in different fields like {administration,Finance,Accounts,Procurement,Marketing,And HR}.It was my wish to do some thing for women education and women empowerment .Now i am a part of a good team which is working hard for this purpose..

Subscribe 0
160