نسل نو کی بقا

Posted on at


استاد جی تمام سکول کی ہر دلعزیز شخصیت تھے ۔ وہ تمام بچوں سے انتہائی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے ۔ وہ مزاج آشنا تھے ۔
بچوں کے مزاج کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے ۔ بچے ان کے طریقہ تدریس سے انتہائی مطمئن تھے ۔ موقع کی مناسبت سے وہ بچوں سے سوالات کرتے ان کی دینی معلومات اور تربیت میں وہ وقتاً فوقتاً اضافہ کرتے رہتے تھے ۔ ایک روز استاد جی نے کلاس میں جانے سے پہلے ہی ارادہ کیا کہ آج میں کلاس میں بچوں سے تاریخی شخصیات کے احوال معلوم کرونگا ۔ استاد جی اپنی دھن کے پکے تھے ۔ آج حسب معمول کلاس میں وہ پہنچے ۔ بچوں کو وہ اپنی مسحور کن گفتگو کی رو میں بہاتے ہوئے طلباء کو تاریخی شخصیات کے احوال کی طر لے آئے اور پھر ان سے سوالات پوچھنے لگے ۔ وہ سوالات پوچھتے رہے اور طلباء اپنے زعم اور علم کے مطابق جوابات دیتے رہے ۔بالآخر عمر نامی ایک طالب علم کو کھڑا کیا گیا اور ان سے پوچھا کہ \"تاریخ اسلام میں عمر سے واقف ہو ؟ عمر کون تھے اور ان کے کیا کارنامے ہیں ؟\" 
بچے نے جواب دیا \"سر ! میں نے صرف ان کا نام سنا ہے \"۔استاد جی نے طالب علم کا یہ جواب سنا اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے بڑے ہی پیار سے بچے کو بٹھایا اور برستی آنکھوں کے ساتھ طلباء کے سامنے بڑے ہی خوبصورت انداز سے سیرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بیان کیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ بچوں کا قصور نہیں بلکہ یہ تو ان کے بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے معروف اسلامی شخصیات سے تو کم از کم واقفیت پیدا کر وائیں ۔ ماں کی گود ، تعلیمی ادارہ اور معاشرہ وہ تین بنیادی عناصر ہیں جہاں سے انسان اچھی تعلیم و تربیت کے حصول سے فردِ کامل بنتا ہے اور مناسب نشو و نما نہ ہونے کے سبب معاشرے پر بوجھ بن کر ابھر تا ہے ۔ گھریلو زندگی میں بچے کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی ہوتی ہے ۔ جبکہ سکول میں پڑھایا جانے والا نصاب تعلیم بھی بچے کی تعلیم و تربیت میں نمایا ں مقام رکھتا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان بنے 67برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔ اسلام ہی کے نام پر لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں ، لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر آج تک اسلام یہاں نافذ نہیں کیا جا سکا ۔ ہمارا نظامِ تعلیم بھی غیروں کے ہاتھوں بنایا گیا اور آج وہی نظامِ تعلیم ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج ہے ۔ ہمیں نصاب تعلیم دینے والے انگریز لارڈ میکالے نے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت یہ کہا تھا کہ \" میں ان کو ایسا نصابِ تعلیم دے کے جارہا ہوں جس کی وجہ سے یہ جسمانی طور پر تو ہندوستانی ہونگے لیکن ان کی سوچ ، افکار اور اذہان انگریزوں کے غلام ہونگے \" ۔اللہ نہ کرے کہ اس قوم کوایسا کرب انگیز دن دیکھنا پڑے ، لیکن جس ڈگر پر پوری قوم کی ہنکایا جارہا ہے تو وہ انتہائی ہلاکت خیز ہے۔ ہمارے قومی تعلیمی نصاب میں گنا چنا اسلامی مواد موجود تھا ۔ جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا آیا ہے ۔ آج تک یہ تبدیلیاں خفیہ منصوبہ بندی سے کی جاتی رہی ہیں لیکن ایک عرصہ سے اب یہ کام علی الاعلان شروع کیا جا چکا ہے ۔


تبدیلی کا نعرہ لگا کر پہلی بار صوبائی حکمران بننے والی جماعت PTI نے خیبر پختونخوا میں مغربی این جی اوز اور انٹر نیشنل ڈونرز کے 
تعاون اور ان کی ہدایات کے مطابق ایک جدید نصاب تعلیم متعارف کروایا ہے ۔ نصاب تعلیم میں کی جانے والی تبدیلیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی نئی نسل کو بالکل ہی اسلام بیزار بنانے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں ۔ معاشرتی علوم کے جماعت پنجم کے نصاب سے حضرت خدیجہ الکبری ٰ ؓ کی جگہ نیلسن منڈیلا ، حضرت فاطمتہ الزہراہ ؓ کی جگہ کارل مارکس اور حضرت امام حسینؓ کی جگہ مارکوپولو کے اسباق کو شامل اشاعت کیا گیا ہے ۔ جماعت چہارم کی معاشرتی علوم میں سے صحابہ کرام ؓ کی سیرت ختم کر کے راجہ رنجیت سنگھ ، حاجی ترنگ زئی ، خان عبدلغفار خان ، اور سردار عبدالرب نشر کا تذکرہ کیاگیا ہے ۔ ایسے ہی دیگر مقامات پر محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور اورنگزیب عالمگیر کے تذکرے نکال کر واسکو ڈے گاما ، اور نیل آرم سٹرانگ کے واقعات ڈالے گئے ہیں ۔ شاید \"نئے پاکستان \"کا یہی وہ نعرہ تھا جس کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسلِ نو کی صحیح نہج پر آبیاری کی جائے ۔اس کے لئے اغیار کی کوششوں کے خلاف مسلم عوام میں بیداری کا شعور اجاگر کرنا ہو گا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں گمراہی کا شکار نہ ہونے پائیں ۔ 

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160