مظلوم حکمران ۔۔۔۔۔

Posted on at


میرا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے،جس شخص کو بھی شکایت ہو وہ بھلا ججھک میرے پاس آسکتا ہے اور اپنی شکایت بیان کر سکتا ہے۔۔یہی نہیں۔۔جب میں ممبر سے اتروں تو آپ لوگوں میں بلند حضرات میرے پاس آکے مجھے مشورہ بھی دے سکتے ہیں:وہ انتہائی درد بھرے انداز میں خطبہ دے رہے تھے،لوگوں پر رقت طاری تھی،رورو کے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی۔یہ خوشگوار خطبہ جاری تھا کہ مدینہ منورہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھا۔۔ایک شور بلند ہوا:باغی مدینہ منورہ میں گھس آئے،باغی مدینہ منورہ میں گھس آئے۔:باغیوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی ان کے گھر کو گھیرے میں لے لیااور وہی پے ڈیرے ڈال دیے ،وہ محاصرے کو مزید سخت سے سخت کرتے گئے۔شروع میں یہ گھیرا نرم تھا وہ مسجد میںآتے اور امامت کراتے تھے لیکن بعد میں اس پر بھی سختی کردی گئی۔ان حالات اور مصائب میں گھرنے والا یہ کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ یہ تو وہ شخصیت تھی جسے مراکش سے لے کر کابل تک لوگ اپنا امیرالمومنین کہتے تھے۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس نے اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس کے ہاتھ کو اللہ کے رسولؐ نے اپنا ہاتھ قرار دیا تھا۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس کے حق میں رسولؐنے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا اے اللہ تو اس سے راضی ہو جا۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس کے بارے میں رسولؐ نے فرمایا تھا کہ جنت میں ہر نبی کا ایک یار ہوتا ہے اور میرا یار یہ ہو گا۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس نے ایسے موقعہ پرسازوسامان سمیت تین ہزار اونٹ اور دس ہزار دینار عنایت فرمائے تھے جب مسلمان ایک غزوہ میں حالات کی تنگی کا شکار تھے۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس نے ایسے حالات میں ایک یہودی سے پینتیس ہزار درہم میں کنواں خرید کر مسلمانوں کے نام وقف کیاتھا جب مسلمان پانی کے ایک ایک بوند کوترس رہے تھے۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس کے بارے میں رسولؐ نے فرمایا تھا کہ اگر میری اور بیٹیاں بھی ہوتی تو میں یکے بعد دیگرے ان کے نکاح میں دے دیتا۔یہ تو وہ شخصیت تھی جس نے قرآن پاک کو ایک جگہ مدون کر کے قیامت تک آنے والے مسلمانوں پراحسان عظیم کیا۔اتنے بڑے انسان اورروم وفارس کو پاؤں تلے روندنے والی مسلمان قوم کے تیسرے خلیفہ راشدحضرت عثمانؓ آج باغیوں اور بلوائیوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے تھے۔انہوں نے محاصرہ اس قدر تنگ کر دیا تھا کہ نہ کوئی مکان کے اندر آ سکتا تھا اور نہ باہر نکل سکتا تھا۔یہاں تک کہ مکان میں پانی کا داخلہ بھی بند کر دیا تھا۔آ پؓ کے خلاف شورش و بغاوت کا سرغنہ کہ جس نے خفیہ سازشوں اور فریب کاریوں سے اس فتنے کا دروازہ کھولا تھا، عبداللہ بن سباء یہودی تھا۔یہ یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا تھا۔اس نے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ پہنا لیکن باطن میں مسلمان نہیں بلکہ منافق تھا۔یہ مسلمانوں کے مختلف شہروں میں منتقل ہوتا رہا اورلوگوں کو خفیہ طور پر حضرت عثمانؓ کے خلاف اکساتا رہا۔وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور فتنے کو بھڑکانے کی پوری پوری کوششوں میں لگا رہا۔ان سازشوں کاآغاز اس نے حجاز سے کیا،پھر بصرہ کی طرف چلا گیا اور کوفہ میں آگیا۔اس کے بعد شام کا رخ کیا اور وہاں اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔کچھ غلط کار لوگ اس کے ساتھ ملتے چلے گئے۔شا م میں اس کی دال نہ گل سکی تو یہ مصر چلا گیا اور اس بڑے فتنے کا منصوبہ اس نے وہاں سے ہی تیار کیا۔یہ مسلسل اپنے شر اور فتنے کا زہر پھیلاتا رہا ۔مصر کے بازاری اور اوباش لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اور کچھ بصرہ و کوفہ کے لوگ بھی ساتھ مل گئے تو انہوں نے اپنی ایک الگ جمعیت بنا لی۔مصری ٹولے کا سردار وسرغنہ عبدالرحمن بن عدیس،بصریوں کے ٹولے کا سردار حکیم بن جبلہ اور کوفیوں کا پیشواء اشتر نخعی تھا۔یہ لوگ حضرت عثمانؓ کو خلافت سے ہٹانا چاہتے تھے اس غرض سے انہوں نے مدینہ الرسولؐ پر چڑھائی کر دی تھی اور مدینہ منورہ کی پیاری اور روح افزاء فضا کو خوف و گھبراہٹ کی پرچھائیوں میں دھکیل دیا تھا۔حضرت عثمانؓ نے بعض صحابہ کو ان کے ساتھ بات چیت کے لئے بھیجا لیکن وہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہے اور آپؓ کے گھر کا محاصرہ مزید سخت کر دیا۔اس پر بعض ممتاز صحابہ کرامؓ آپ کی حفاظت اور مدافعت کے لیے آگئے انہوں نے آپ کو بچانے کی پوری سعی کی اور بار بار آپ سے باغیوں کے خلاف لڑنے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے انہیں قتال و جنگ سے روک دیاکیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جائے۔ایک دن آپ چھت پر آئے اور باغیوں سے خطاب کیا جس میں آپ نے اپنی خدمات اور ان کے صلے میں نبی کریم ﷺسے سنی ہوئیں بشارتیں بیان کیں تاکہ ان لوگوں کا ضمیر بیدار ہو اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ وہ کیسے شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،لیکن ان کے ضمیر مردہ ہو چکے تھے ۔ہر سوال کا جواب توانہوں نے ہاں میں دیا لیکن اپنے مطالبے پر پھر بھی ڈٹے رہے۔۔ان کا کہنا یہی تھا:یا تو آپ خلافت چھوڑ دیں،ورنہ پھر ہم آپ کو قتل کریں گے۔:آپ نے باغیوں سے یہ بھی فرمایا:تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو،تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے؟میں تو اسلام سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پی،زنا نہیں کیا،کسی کو قتل نہیں کیا۔۔یاد رکھو،اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر اس کے بعد کبھی تم میں باہم محبت نہیں رہے گی۔۔تم ہمیشہ آپس میں لڑتے ہی رہو گے۔۔تمہاری اجتماعیت ختم ہو جائے گی۔۔:ان لوگوں پر آپ کی ان باتوں کابھی کوئی اثر نہ ہوا،اس وقت حالات بہت نازک ہو چکے تھے،مدینہ منورہ میں خوف کا عالم تھا۔ادھر جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا،حضرت عثمانؓ کو حضور نبی کریمﷺ کی پیش گوئیوں کی روشنی میں اپنی شہادت کا یقین ہو چلا تھا اور آپ نے اپنی شہادت کی تیاری شروع کر دی تھی، چنانچہ جس دن یہ سانحہ پیش آیا اس روز آپ نے روزہ رکھا ،وہ جمعے کا دن تھا۔آپ پر اس حالت میں نیند کی کیفیت طاری ہو گئی،اس کیفیت سے ہوشیار ہوئے تو فرمایا:میں نے نیم خوابی کے عالم میں حضورﷺ،حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ کو دیکھا ہے،آپ فرما رہے تھے:عثمان!آج کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کرنا۔:اس روز آپ نے بیس غلام آزاد کئے اور ایک پاجامہ منگوا کر پہنا جسے آپ نے پہلے کبھی نہیں پہنا تھا۔اتنے میں باغیوں نے آپ کے مکان پر ہلہ بولا اور دروازے کو آگ لگادی۔آپ کے پڑوس میں حضرت عمروبن حزمؓ کا مکان تھا جس کی ایک کھڑکی حضرت عثمانؓ کے مکان میں کھلتی تھی فسادی اس کے ذریعے اندر آگھسے۔اور وہ وقت عصر کے بعد کا تھا۔آپ کے سامنے قرآن کھلا ہوا تھا ایک فسادی نے آگے بڑھ کر آپ کی ڈاڑھی مبارک پکڑ لی اور سخت بدکلامی سے پیش آیا،اس کے ہاتھ میں خنجر تھا وہ خنجر اس نے آپ کی پیشانی پر مارا،پیشانی سے خون کا فوارہ بہہ نکلا جس سے آپ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو گئی اور ساتھ ہی آپ بائیں کروٹ گر گئے۔آپ سورۂ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔پیشانی سے نکل کر خون ڈاڑھی تک آیا اور ڈاڑھی سے قرآن کریم پر بہنے لگا،پھر سب مل کر آپ پر ٹوٹ پڑے کنانہ بن بشر بن عتاب نے لوہے کی سلاخ ماری،سودان بن حمران نے تلوار کا وار کیا اور عمرو بن حمق نے سینے پر بیٹھ کر نیزے کے مسلسل کئی وار کئے،اس کے ساتھ ہی آپ کی روح پرواز کر گئی اور امت ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئی۔یہ پرہول سانحہ عصر اور مغرب کے درمیان جمعے کے روز ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ ؁ کو ہوا۔یہ دن ہر سال ہمیں اس صبرواستقامت کے پہاڑ کی یاد دلاتا ہے جس نے مدینہ الرسولؐ کی حرمت وتقدس اور مسلمان کے خون سے بچنے کے لئے سارے زخم اپنے سینے پے کھا کر بھی دشمن کو نہ زخمی کیا اور نہ زخمی کرنے کی اجازت دی۔یہ لوگ ہمارے ہیروز اور ہمارے آئیڈیل ہیں جن کی زندگیوں اور کارناموں پہ ہم فخربھی کر سکتے ہیں اور سر اٹھا کر بھی چل سکتے ہیں لیکن افسوس ان حضرات کی یوم ولادت اور یوم وفات گزر جاتی ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160