ہر سو شب تاریک کے مسافر مضطرب ہیں
روشنی کی تلاش میں ہر دم مصر ہیں
نجانے کن خطاوں کی عطا ہے
جو راستے اس قدر ہے پر خطر ہیں
نا کر وہ گناہوں کا بوجھ سر پر
بھٹک رہے ہیں گو کہ عازم سفر ہیں
مشکل میں آسانی ، تاریکی میں چھپی ہے روشنی
یہی ہے زندگی ، یہی اشارے ہفت نگر ہیں
ہر دور میں تاریکی سے جنگ ، رہا ہے ١ جہاد
کیا کبھی رکا ہے سیل رواں جب ہم بے خطر ہیں
آخر کر تارے ماند ، ہوۓ سورج نکلا کیوں کر
یہ سفر لا تقنطو برحمتہ حمد اللہ کے زیر اثر ہیں
ختم شب تاریخ ہو گی ثنا ایک روز
اگر ہے یقین محکم عمل پہیم تو پھر فتح ، فتح میں ہے-