پنڈی بازار

Posted on at


واہ بھیٴ واہ کتنی سہانی اور خوبصورت شب ہوتی ھے۔جو پل بھر میں ہی گزر جاتی ھے۔ویسے تو لوگ کہتے ہیں کہ سردیوں کی راتیں بہت لمبی ہوتی ہیں مگر مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ جیسے ہی میری آنکھ سپنوں سے ٹکراتی ہیں تو آفتاب کی کرن میری آنکھوں پر دستک دیتی ھے یا بانگ مرغ کانوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ھے اور مھجے میری تخلیق کردہ دنیا سے بیدار کرتی ھے۔


ایسی ہی ایک صبح جب میں اپنے بستان میں لمبی تان کر سورہا تھا تو اچانک ایسا لگا کہ ایک شخص چھلانگ لگا کر بستر پر آبیٹھا ھے اتنے میں آواز سنی کے ًآٹھو آٹھوً معلوم ہوا کے چھوٹی بہن ھے۔جو مھجے آٹھانے کی بیکار کوشش کر رہی ھے۔آج شاہد آفتاب اور مرغ کہیں مصرف تھے کہ یہ جناب آگی مھجے جگانے کی تمنا دل میں لے کر۔آج اتوار تھا تو اسکی پکار پر میرا ہلنے کا بھی پرگرام نہ تھا کیونکہ رات کو خد سے عہد جو لیا تھا کہ دس سے پہلے نہ آٹھوں گا۔


لیکن وہ کہیں جانے کی بات کر رہی تھی اسلے اسکی پکار پر ًبہ سر چشمً کہنا پڑا۔مجبوراً مھجے اپنا عہد توڑنا پڑا اور اونگھ لیتے ہوےٴ پلٹا تاکہ اسے یعقیں ہوجاےٴ کہ جناب گہری نید میں سورہے تھے۔آٹنھے پر پتہ چلا کہ ﴿تایا ابو کے بیٹے﴾شاہد اور آمنہ باجی آےٴہوےٴ ہیں۔آج انھوں نے راولپنڈی جانا تھا تع میں نے کہا تھا کے میں بھی جاوٴں گا۔جب گھڑی پر نظر پڑی تو پوںے دس تھے جس پر مھجے بہت افسوس ہوا اور ساتھ ہی بہن پر غصہ بھی آیا کہ اسنے مھجے جادی کیوں نہیں آٹھایا۔


  بہر حال جو ہوا سو ہوا اب میں نے منہ ہاتھ دھویا ناشتہ کیا اور شاہد کے ساتھ چل دیا۔معلوم ہوا کے ریل گاڑی سے جانے کا پروگرام ھے تو ہم جادی سے اسٹیشن پہنچے اور ٹکٹ لیے اور ریل کا انتظار کرنے لگ گے جو کے پندرہ منٹ میں آنے والی تھی۔پلیٹ فام پر کافی رش تھی جس کے وجہ سے لگ رہا تھا کے ریل میں چڑنا مشکل ہی نہیں بلکے نا ممکن ھے۔اسلیے ہم بھی بیٹھ گیے۔پلیٹ فام پر سب لوگ ریل کے منتاظر تھے لیکن اس میں سے ایک تو کھچ تو زیادہ ہی بیتاب تھے۔ہم نے فزکس میں پڑھا تھا کے آواز ہوا کی نسبت لوےٴ میں زیادہ تیز آتی ھے تو ریل کے آنے کا ہمیں پہلے ہی پتہ چل گیا تھا۔


دو گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم راولپنڈی پہنچ گے۔اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک بڑی سی سڑک تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے گھیل کا میدان ہو۔وہاں پر سوزوکیاں تھی جو راجہ بازار کے لیے جاتی تھی۔ہم سوزوکی پر بیٹھے تو تھوڑی دیر میں راجہ بازار پہنچ گے۔تو ایسا لگ رہا تھا کو پورے شہر کی عوام یہاں ہی آگی ہیں۔وہان اتنے گیما گہمی ھے کے چلنا تو دور یہاں کھڑا ہونا بھی کسی فرشتے کے بس کی بات بھی نہ معلوم ہوتی تھی۔ہم بھی لوگو لے سمندر میں اتر گے،سب سے پہلے تو جہاں شاہد کا کام تھا وہاں جانا تھا اسکے بعد گومنے کا بھی پروگرام تھا،بازار میں بہت سی رونقیں چہک رہی تھیں لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ہم اپنی منزل پر پہنچے تو شاہد کا کام دو گھنٹوں میں جاکر ختم ہوا،اس وقت تک بھوک نے بھی اپنا اثر دیکھانا شروع کردیا تھا جس پر ہمیں مجبوراً ہوٹل کی راہ لینی پڑی۔


کھانا کھانے کے بعد چاےٴ کی چسکی بھی لی۔  


اسکے بعد بازاروں کا معانہٴ کرنے کے لیے ہوٹل سے روانہ ہوےٴ موتی بازار،لال قلعہ،اور لنڈا بازار کا معانہٴ کیا اسکے بعد واپسی کا پروگرام بنایا۔اس وقت ریل نہ تھی تو ہمیں ویگن اسٹیشن جانا پڑا اسکے بعد ٹکٹ لیے اور گھر کی طرف روانہ ہوگے۔ 



About the author

160