Andhay

Posted on at



ہندوستان پر بڑی شان و شوکت سے حکومت کرنےوالے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا دربار ایک عہد ساز مثال کے طور پر مشہور تھا۔ ملک میں خوشحالی اور انصاف کا دور دورہ تھا۔ تمام مذاہب کے لوگ نہایت رواداری سے امن وآشتی سے اپنی اپنی زندگی گزار رہے تھے۔شہنشاہ اکبر اعظم کے دربار میں جو نورتن براجمان تھے یہ ان کا کمال تھا کہ معاشرے میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی یادنگافساد کی نوبت نہ آتی تھی۔ درباری نورتن ایسے عالموں، نجومیوں، شاعروں ، ماہرین امن وجنگ پر مشتمل تھا کہ جن کی تجاویز پر عمل کرنے سے سلطنت کے بڑے بڑے مسائل حل ہو جاتے تھے۔ انہی نورتنوں میں دو ایسے کردار بھی شامل تھے کہ جو دربار اور شہنشاہ کو زعفران زار رکھنے کا کام انجام دیتے تھے۔ یہ دو کردار ملادوپیازہ اور بیربل تھے کہ جن کی ظرافت کو تاریخ آج تک نہیں بھلا سکی اور شاید قیامت تک نہ بھلائی جا سکے۔ مذکورہ دونوں کردار دربار میں نوک جھونک کے سلسلے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ایک دن بیربل کو ایک شرارت سوجھی اور وہ شہنشاہ اکبر کے دربار میں حاضر ہوا اورتخلئیے میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ شہنشاہ نے تخلیہ کہہ کر دربار خالی کرادیا اور بیربل سے پوچھا اب بولو کیا بات ہے۔ بیربل نے دست بستہ عرض کی کہ ظلّ الہٰی۔۔۔شہر میں اندھوں اور بینا افراد کی تعداد معلوم کرنی ہے اور یہ کام ملا دوپیازہ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا لہٰذا آپ حکم دیں کہ وہ کل سے اپنا کام شروع کرے۔ اکبر اعظم نے بیربل سے کہا کہ یہ کیسا سوال ہے کہ جس کا جواب سب جانتے ہیں یعنی شہر میں کیا بلکہ پوری دنیا میں اندھوں سے بینا افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ بیربل نے کہا کہ جان کی امان پاﺅں توکچھ عرض کروں۔ اکبر اعظم نے کہا اجازت ہے ۔ بیربل نے کہا کہ یہ بھی ایک ظریفانہ کھیل ہے اور آئندہ چند روز میں شہری اور زعماءمحظوظ ہوتے رہےں گے ۔ بادشاہ سلامت نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ پروگرام کو آخری شکل دینے کے بعد ملا دوپیازہ کو دربار میں بلایا گیا اور شہنشاہ نے حکم دیا کہ ملا دو پیازہ آئندہ تین روز کے اندر اندر پورے شہر کے باسیوں میں بینا اور نابینا افراد کی تعداد معلوم کرکے تحقیق کے نتائج دربار میں پیش کریں تاکہ حکومت کو معلوم ہو سکے کہ سلطنت میں بسنے والے افراد میں بینا زیادہ ہیں یا نابینا۔ ملا دوپیاز ہ نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے دو تعلیم یافتہ غلام ، ایک بڑا سوت کاتنے کا چرخہ اور مزری کی رسی کا مطالبہ کر دیا۔ جو بادشاہ کے حکم پر فی الفور مہیا کردیا گیا۔ یوںملا دوپیازہ اپنے سٹاف اور چرخے وغیرہ سنبھالے شہر کے ایک ایسے چوک میں جا بیٹھے جہاں سے شہریوں کی اکثریت گزرتی تھی۔ غلام قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئے اور ملا دوپیازہ نے پیڑھی پر بیٹھ کر چرخہ سنبھال لیا اور چرخے پر مزری کی رسی کاتنے لگا۔ لوگ باگ آس پاس سے گزرتے ہوئے قہقہے لگاتے اور پوچھ بیٹھتے کہ ارے ملا دوپیازہ یہ کیا کر رہے ہو؟ ملا دوپیازہ جواب دینے کی بجائے اپنے منشی غلام کو کہہ دیتے کہ فہرست میں لکھ دو کہ یہ اندھا ہے۔ یوں سلسلہ چلتا گیا اور تقریباً ہر شخص ملا دوپیازہ سے پہلے قہقہہ لگانے پر یہی پوچھتا کہ ملاں ۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو؟ اور ملا دوپیازہ اس کو اندھوں کی فہرست میں شامل کردیتا۔ تیسرے اور آخری دن کے آغاز پر کئی درباری عہدیدار ، وزرائ، زعماءاور سپہ سالار چو ک میں سے گزرتے ہوئے ازراہ تفنن ملادوپیازہ سے سوال پوچھ لیتے کہ یہ کیا کر رہے ہو اور ملا غلام کو حکم دیتے ہیں کہ اس کا نام اندھوں میں لکھ دو۔ سہ پہر کے قریب ملا دوپیازہ کی تین دنوں کی بنی ہوئی گت کو دیکھنے کیلئے بیربل جب چوک سے گزرنے لگا تو اس نے ہنستے ہوئے ملا سے پوچھا۔۔۔ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ ملا دوپیازہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ فہرست میں بیربل کا نام سب سے اوپر کے اندھوں میں لکھ ڈالو۔ بیربل ہنستے مسکراتے واپس دربار میں پہنچا تو شہنشاہ معظم کو ملا کی کیفیت اورصورت حال سے آگاہ کیا جسے سن کر اکبر اعطم نے خود شہر کے بڑے چوک میں ملا دوپیازہ کی حالت دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ غلاموں نے فوراً شاہی بگھی حاضر کر دی اور شہنشاہ چوک کی جانب چل پڑے۔ تیسرے دن کی آخری ساعتیں باقی تھیں کہ شنہشاہ کی سواری چوک میں وارد ہوئی اور ملادوپیازہ پر نظر پڑتے ہی شہنشاہ اپنے قہقہہ نما ہنسی کو قابو نہ کر سکے اور بولے۔۔۔ ارے ملا۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو؟ ملا دوپیازہ نے شہنشاہ کو جواب دینے کی بجائے اپنے غلام منشی کو حکم دیا کہ بادشاہ سلامت سب سے بڑا اندھا ہے اس لئے اس کا نام فہرست میں سب سے اوپر لکھا جائے۔ بادشاہ سلامت کی سواری آخری تھی اور یوں ملا دوپیازہ نے اپنی سروے رپورٹ مکمل کر لی۔ دوسرے دن شنہشاہ اکبر نے ملا دوپیازہ کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا لیکن رپورٹ میںاپنا نام اندھوں میں سرفہرست دیکھ کر حیران و شسدر ہو کر ملا دوپیازہ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ تمہاری رپورٹ قابل اعتبار اس لئے نہیں ہے کہ شہر میں سب لوگ بینا ہیں تاہم چند لوگ اندھے ہیں جو زیادہ تر اپنے گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ملا دوپیازہ نے دست بستہ عرض کرتے ہوئے کہا کہ ظل الہٰی۔۔۔ اگر آپ بیربل ، وزرائ، عمائدین شہر اور رعایا اندھے نہیں تھے تو مجھے چرخہ کاتتے ہوئے دیکھ کر یہ کیوں پوچھا کہ ملا دوپیازہ کیا کر رہا ہے۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ کسی زمانے میںلکھی پڑھی جانے والی کہانیوں کے آخر میں Moral یا انجام کی بات ہوتی تھی۔یعنی کربھلا ہو بھلا۔ نیکی کر دریا میں ڈال ۔ اتفاق میں برکت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ زیر نظر کہانی کی اکثر باتیں اور کیفیت میرے شہر پر بالکل صادق آتی ہیں ۔ میرے ٹریفک پر مامور ڈھول سپاہیوں کو آج کل کی کڑی دھوپ میں بھرے بازار میں ٹریفک جام کا سبب بننے والی گاڑی نظر نہیں آتی اور اگر گاڑی VIP ہوتو بالکل نظر نہیں آتی اور ٹریفک سپاہی پیٹھ کرکے کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔ وہ بینا ہے یا نابینا۔۔۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے ۔ میرے شہر کے فٹ پاتھوں پر چلنے کیلئے کسی فٹ کی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ ا س لئے وہ سڑک کے بیچ کی راہ اپنا لیتا ہے لیکن اگر اندھے ہیں تو میونسپل کمیٹی کے وہ ذمہ داراہل کاران ہیں جو تجاوزات مافیا کے خاتمے کے ذمہ داران ہیں لیکن انہیںشہر کے فٹ پاتھ کبھی بھی جنرل سٹور ،پھل و سبزی منڈی اور ہوٹل میں تبدیل ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ وہ غریب تواندھے ہیں ۔۔۔ میرے شہر کے قصاب دادو تحسین کے مستحق ہیں کہ انہیں چربی ، چھیچھڑے ، اوجڑی، بینگن اور خون ملا کر قیمہ کی مشین میں سے گزارنے کے بعد مذکورہ اشیاءنظر نہیں آتیں صرف قیمہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ غریب تو اندھا ہے لیکن صارف اندھا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو گھر والوں کو 400روپے کلو کے حساب سے قیمہ لا کر دیتا ہے ۔ لیکن وہ بادشاہ سلامت سے بھی بڑا اندھا ہے ۔ میرے شہر کے گردونواح میں دو نمبر مشروبات تیار ہو کر دھڑلے سے فروخت ہو رہی ہیں۔۔۔ کیا خریدار اندھا نہیں ہے؟ ۔۔۔ اتنا ضرور ہے کہ اب ساون کی آمد آمد ہے اور ساون کے اندھے کو ہر طرف ہر ا ہی ہرا نظر آتا ہے۔۔۔ جس معاشرے میں آقا سے لے کر رعایا تک سب کے سب اندھے ہوں اس معاشرے میں دیکھنے والی آنکھیں کہاں مل سکیں گی ۔ ۔۔ ہم بھی کیا قوم ہیں کہ سب نے ایک دوسرے کو اندھا بنایا ہوا ہے۔۔۔ کیا کبھی یہ سوچا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران شیطانوںکو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔۔۔ مگر یہ کیا ؟ یہ تو ہر طرف شیطان ہی شیطان نظر آتے ہیں اور وہ بھی مکمل آزاد!۔۔۔جس کو دیکھیں آنکھ اور عقل کے اندھے ہونے کے باوجود دوسروں کی جیب پر نظریں گاڑھے بیٹھے ہیں اور معمولی سی تکرار پر چھری آرپار کرنے سے نہیں ہچکچاتے ۔۔۔ ایک خیر اللہ مانسہرہ میں چھری چلا گیا جبکہ دوسرے نے ایبٹ آباد میں کام دکھا دیا۔ ۔۔ لیکن ہم تو اندھے ہیں اور اندھے رہیں گے ۔۔۔۔ البتہ مشیت ایزدی کے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ ۔
جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔نہ مانو تو کر کے دیکھو
جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے۔ نہ مانو تو مرکے دیکھو


For More Blogs and Movies Visit my Filmannex Page Madiha Awan and subscribe for more updates



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160