حضرت ابو ایوب انصاری - دوسرا حصّہ

Posted on at


حضرت ابو ایوب انصاری کی قسمت پر جتنا بھی رشک کیا جاۓ کم ہے. آئیں آپ کو یہاں ایک چھوٹا سا خوبصورت واقعہ سناتے ہیں جس میں محبت کے جذبات بھی موجزن ہیں اور حالات کی سختی بھی.مگر یہ واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کی خوش قسمتی اور خوش بختی کی ایک زندہ مثال بھی ہے . حضرت عبدللہ بن عبّاس  روایت کرتے ہیں کہ ایک روز سخت دوپہر کا وقت تھا اور جناب ابو بکر صدیق مسجد کی جناب گامزن تھے کہ جناب عمر فاروق کی نظر آپ پر پڑی .تو انہوں نے آپ سے پوچھا کے ابو بکر اس وقت تمہیں کون سی ضرورت اس بھری گرمی میں باہر کھینچ لائی تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ میں تو بھوک کی شدّت سے نڈھال ہوں اس لئے باہر آیا . حضرت عمر نے بھی کہا الله کی قسم میں بھی اسی لئے باہر آیا ہوں . ابھی صدیق و فاروق اسی گفتگو میں مگن تھے کہ رسول الله صلّ اللہ و سلّم بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور پوچھنے لگے کہ اس وقت کس ضرورت سے باہر آئے ہو تو حضرت ابو بکر اور عمر فاروق نے عرض کی کہ یا رسول اللہ بھوک کی شدّت سے بیتاب ہو کے باہر آنا پڑا .تو رسول اللہ نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی اسی ضرورت نے باہر نکالا ہے .آؤ میرے ساتھ چلو


 



 


پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق اور رسول اللہ صلّ الله و سلّم چلے اور حضرت ابو ایوب کے دروازے پر جا پہنچے .حضرت ابو ایوب انصاری کا یہ معمول تھا کہ روزانہ رسول الله کے لئے کھانا نکال کر الگ سے رکھتے تھے .اگر آپ صلّ الله و سلّم وقت پر تشریف نہ لا پاتے تو حضرت ابو ایوب یہ کھانا اپنے گھر والوں کے حوالے کر دیتے .حضرت ابو ایوب کی زوجہ محترمہ نے آپ صلّ الله و سلّم کو دروازے پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دیکھا تو خوش آمدید کہا .آپ صلّ اللہ و سلّم نے دریافت کیا کہ حضرت ابو ایوب کہاں ہیں ؟ حضرت ابو ایوب اس وقت گھر کے پاس ہی اپنے کھجوروں کے باغ میں کام میں مگن تھے جیسے ہی آپ صلّ الله و سلّم کی آواز ان کے کان میں پڑی جلدی سے تشریف لاۓ اور آپ صلّ الله و سلّم اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا .اور پھر عرض کیا کہ اے الله کے پیارے رسول یہ وہ وقت تو نہیں جس میں آپ تشریف لاتے ہیں .یعنی جس وقت آپ صلّ الله و سلّم کے لئے کھانا رکھا ہوتا ہے تو آنحضرت نے فرمایا ہاں تم نے ٹھیک کہا .اس کے بعد حضرت ابو ایوب باغ میں گئے اور کھجور کی ایک شاخ کاٹ لاۓ 


 



 


نحضرت صلّ الله و سلّم نے دیکھا تو یہ فرمایا کے میرا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کے تم پوری کی پوری شاخ ہی کاٹ لاؤ تم کھجوریں کیں نہ توڑ لاۓ .تو حضرت ابو ایوب انصاری نے عرض کیا کہ یا رسول الله میں یہ چاہتا تھا کے آپ اس میں سے کچی ،پکّی اور خشک کھجوریں کھائیں اور میں آپ کے لئے کچھ نہ کچھ ذبح بھی کرتا ہوں .آنحضرت صلّ اللہ و سلّم نے فرمایا کے اگر ذبح ہی کرنا ہے تو کوئی دودھ دینے والا جانور ذبح مت کر لینا .اس کے بعد حضرت ابو ایوب نے بکری کے ایک بچے کو ذبح کیا اور اہلیہ سے کہا کہ آٹا گوندھ کر روٹیاں پکاؤ . اس کے بعد خود آدھے گوشت کو پکایا اور آدھے کو بھون لیا .جب کھانا تیار ہونے کے بعد آنحضرت صلّ الله و سلّم اور ان کے رفقا کے سامنے رکھ دیا گیا تو آپ صلّ الله و سلّم نے ایک بوٹی اٹھائی اس کو ایک روٹی میں لپیٹا اور حضرت ابو ایوب سے کہنے لگے اے ابو ایوب جلدی سے جا کر یہ بوٹی فاطمہ کو دے آؤ اس نے بہت دن سے ایسا کھانا نہیں کھایا .اس کے بعد جب آپ صلّ الله و سلّم کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا روٹی ،گوشت اور پکّی ہوئی خشک اور تر کھجوریں .اور ساتھ ہی  آنحضرت صلّ الله و سلّم کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے یہ الفاظ ادا کئے .قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ وہ نعمت ہے جس کے بارے میں روز قیامت تم سے استفسار کیا جاۓ گا اور جب جب تمہیں ایسی نعمت میسر آ جاۓ تو بسم الله پڑھ لیا کرو اور جب پیٹ بھر جاۓ تو پڑھا کرو تعریفوں کی حقدار وہی ایک ذات ہے جس نے ہمیں شکم سیر کیا اور ہم پر اپنی نعمت فرمائی تو بہترین نعمت فرمائی 


 



 


***********************************************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری


 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160