قرآن کریم سے شادی - حصہ اول

Posted on at


یہ المناک و سفاک حقیقت بہت سے باخبر انسانوں کو عرصہ داراز سے معلوم ہے کہ وطن عزیز کے اندر کنواری مسلمان لڑکیوں کی شادی قرآن کریم سے کر دی جاتی ہے- یہ لعنتی و مردود رسم زیادہ تر صوبہ سندھ میں مروج ہے- بنیادی انسانی حقوق پر اس طرح ڈاکہ زنی سے باخبر رہنے کے باوجود پاکستان ایسے نظریاتی ملک کے اندر کسی سیاسی و مذہبی طبقے نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی تکلیف اور جرات نہیں کی- تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عورتوں کی شادی کے شرعی حق کو زیر و زبر کرنے کے لئے بھی قرآن کریم جیسی بابرکت اور مقدس کتاب کو استعمال کیا جاتا ہے



بیٹی جب جوان ہوتی ہے تو جاگیردار وڈیرہ اور نام نہاد پیر ایک رسم ادا کرتے ہیں جو "حق بخشوانے کی رسم" کہلاتی ہے، ہوتا یوں ہے لڑکی کے بالغ وعاقل ہونے پر جاگیردار، وڈیرہ اپنی برادری کے خاص خاص افراد کو جمع کر کے انھیں اطلاع دیتا ہے کہ فلاں دوشیزہ اپنے نکاح کا حق قرآن کریم کے نکاح پر فلاں دن اس کو بخشے گی، مقررہ تاریخ اور وقت پر لڑکی کو خوب بناؤ سنگھار کرکے عروسی جوڑا پہنایا جاتا ہے، ہاتوں پر مہندی لگی جاتی ہے، ڈھولک پر گیت گاۓ جاتے ہیں، دوشیزہ جو گھونگھٹ نکل کر گردن جھکا کر بوڑھیوں کے جلوس اور سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھا دیا جاتا ہے اور اس کے برابر ریشمی جزدان میں سجا ہوا قرآن مجید رحل پر رکھ دیا جاتا ہے- صندول و کافور لگایا جاتا ہے، درباری ملاں، والدین اور بہیں بھائیوں کی موجودگی میں چند الٹے سیدھے جملے پڑھتا ہے اور بڑی بوڑھیاں قرآن مقدس اٹھا کر دلہن کی جھولی میں رکھ دیتی ہیں، لڑکی قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا لیتی ہے اور اس کو بوسہ دیتی ہے اور پھر بڑی بوڑھیاں دلہن سے کہتی ہیں کہ وہ اقرار کرے کہ اس نے اپنا حق قرآن کریم کو بخش دیا ہے، اس طرح اکثر و بیشتر زبردستی کروایا جاتا ہے، لوگ اٹھ کر ظالم وڈیرے اور بے بس و مظلوم لڑکی کو مبارک باد دیتے ہیں



شور و غل برپا ہوتا ہے، مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے، اب چونکہ لڑکی اپنا حق قرآن شریف کو بخش چکی ہوتی ہے اس طرح اس کی شادی کسی جوان مرد سے حرام قرار دی جاتی ہے، اور اسے قرآن کی مار کا خوف دلایا جاتا ہے کہ اگر تو نے شادی کا نام لیا یا مطالبہ کیا تو تمہیں قرآن کی مار پڑے گی اور قرآن تمہاری دنیا و آخرت دونوں کو تہس نہس کر دے گا، قرآن سے شادی اور اپنے شادی کے حق سے دستبرداری کےبعد یہ لڑکی "بی بی" بن جاتی ہے اور روحانیت کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے گاؤں کی عورتیں دم و درود کرانے اپنے بچوں کو اس کے پاس لانے لگتی ہیں اور نذرانہ اس کے قدموں میں نچھاور کرتی ہیں، اس طرح نام نہاد گدی نشین اور وڈیرے کی جان وراثت کا حق دینے سے چھوٹ جاتی ہے اور جھوٹی آن شان برقرار رہتی ہے یہ "بی بی" ہمیشہ سفید لباس زیب تن کرتی ہیں جو اس کے ارمانوں کا کفن بن کر جزوبدن بن جاتا ہے، یہ زندہ درگور لڑکیاں جب جذبات سے مغلوب ہو کر ہسٹریا کی مریضہ بن جاتی ہیں تو اسے روحانیت میں اعلی درجے پر فائز ہونے سے تعبیر دی جاتی ہے



 سندھ کے بڑے بڑے زمینداروں کی حویلیوں میں اور پیر صاحبان کی گدیوں میں چند خوف خدا کے حامل اور انسانیت کی رمق رکھنے والوں کے علاوہ اکثر و بیشتر حویلیوں میں ان زندہ درگور بیٹیوں کے ارمانوں کی قبریں نظر آئین گی   



About the author

160