جن کو سورج میری چھوکھٹ سے ملا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Posted on at


آج میں بہت عجیب سا سوچ رہا ہوں، کچھ دن پہلے ایک ذاتی کام کے لیے میں گاوں گیا اور میرا واسطہ ایک بہت عجیب سے بندے سے پڑ گیا۔ اگرچہ میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کروانے گیا تھا لیکن اُس کی سوچ میں شاید ایسا ہی تھا۔


        


جس بندے سے میرا کام تھا وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ ایک ایسا بندہ تھا جو 1947 میں پاکستان آیا تھا اور ہمارے خاندان نے اُسے پناہ دی تھی۔ اُس کی ہر لحاظ سے مدد کی اور اس کی ہر ممکن حد تک رہنمای کی۔


جب میں سے اُس بندے کا رویہ دیکھا تو محجھے بہت دکھ ہوا اور میں یہ سوچنے لگا کہ یہ وہ بندہ ہے جو ہمارے ہی ٹکڑوں پہ پل کر ہمارے ہی سامنے کھڑا ہوا ہے اُس نے میرا کام ایسے کیا جیسے وہ محجھ پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہا ہو۔ اگرچہ ہمارے لیے اُس کا ہمارے آمنے سامنے ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن معاشرے کی نظر میں یہ بہت بڑی بات تھی۔


        


زمانے کی نظر میں یہ بہت اہم بات ہوتی ہے جب کسی آدمی کے خلاف اُس کا ہی ملازم یا ہی کامہ اُس کے خلاف کوئی بات کرئے تو تمام لوگ اُس کو عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں اور اور اُسی کوقصوروار جانتے ہیں۔


                               


میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اسی حوالے سے شاعر کہتا ہے کہ



 جن کو سورج میری چھوکھٹ سے ملا کرتا تھا                    


اب وہ خیرات میں دیتے ہیں اُجالے محجھ کو                        



بقلم : عابد رفیق



About the author

abid-rafique

Im Abid Rafique student of BS(hons) in chemistry and and now i m writer at film annex. I belong to pakistan.

Subscribe 0
160