کل میں ایک بین الاقوامی ٹی وی چینل پر دیکھ رہا تھا کہ پاکسان کی عالمی سطح پر کرپشن کی وجہ سے اہمیت کم ہو رہی ہے اور ایک ملکی سالمیت کے لیے یہ بہت خطرناک بات ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں جا شامل ہوا ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
یہ خبر سننے کے فوراً میں نے ٹیلی وژن بند کر دیا اور سوچنے لگا کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس فساد کی بنیاد کہاں سے اور کیوں شروع ہوئی؟ آخر کار بہت سوچ کے بعد میں یہ بات ماننے پر مجبور ہو گیا کہ اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور یہ ہماری ہی اُگائی ہوئی فصل ہے۔
شاید میری بات سے آپ لوگ بھی اتفاق نہ کر رہے ہوں لیکن چند مثالوں سے آپ یہ بات ماننے پر مجبور ہو جایئں گے کہ ہم عام عوام ہی اس سب کا ذمہ دار ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عام آدمی کسی ذاتی کام کے لیے کسی سرکاری ملازم کو رشوت دیتا ہے اور اسکے بعد اُسکے افسران بالا اُسے یہ رقم اکیلے تو نہیں ہضم کرنے دیں گئے اور یہ سلسہ بہت اُوپر تک جائے گا۔
اسی طرح جب کوئی افسران بالا میں سے اسطرح رشوت خوری کرئے گا تو وہ رقم بھی بہت نیچے تک آئے گی تاکہ سب کا منہ بند ہی رہے۔ اب اس سب ڈرامے میں عام آدمی اسطرح قصور وار ہے کہ یہ سب کچھ وہ چپ چاپ دیکھنے کے باوجود آواز بُلند نہیں کرتا ہے اور بجائے اُس کام کو روکنے کے تھوڑی بہت ہوا دیکر اپنا کام نکلوانے کی کوشش کرتا ہے، یہ کسی ایک کا قصور نہین بلکہ ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ
ہمیں خبر ہے دشمن کے سب ٹھکانوں کی
شریک جُرم نہ ہوتے تو مُخبری کرتے
مضمون نگار: عابد رفیق