سر مئی شام ابر چھایا تھا الوداع مجھ کو کہنے آیا تھا
نمدیدہ پلکیں لیے وہ ہنستا رہا
وقت رخصت بہت رولایا تھا
ضبط کب تھا مجھے ان آنکھوں پر
جب گلے اس نے آ گایا تھا
وقت رخصتی وہ مڑ کے تکتا رہا
سند لیں ہاتھ بھی ہلایا تھا
یاد منظر ہے آلودہ کا وحید
حسرتوں کا مہیب سایہ تھا