شہزادہ اعظم اور بہادر شاہ کی صوبوں کیلئے لڑائی

Posted on at


بہادر شاہ ظفر نے آگرہ سے دہلی جاتے ہوۓ اپنے بھائی شہزادہ اعظم کو خط لکھا کہ وہ باپ کی وصیت کے مطابق چھ صوبے اس کو دے  دے ۔ لیکن اعظم یہ خط پڑھ کر بہت ہی غصہ ہو گیا اور اس نے صوبے نہ دینے کی ٹھان لی ۔ بہادر شاہ ظفر کی تمام کوششیں ناکام ہو جانے کے بعد اس کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کے پاس جنگ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اس کے بعد بہادر شاہ ظفر آگرہ سے دھولپور کی جانب روانہ ہوا ۔ اسطرح اعظم نے بھی اپنے خاندان کو دھولپور سے قلعہ گوالیار میں منتقل کر دیا ۔ اعظم کے پاس ہتھیاروں کی بھی کمی تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے غصے اور غرور میں تھا ۔



وہ کہتا تھا کہ ایک بکری چرانے والے کیلئے ہتھیار کی کیا ضرورت ہوتی ہے ۔ کچھ ہی دنوں بعد جاجو سے چار میل کے فاصلے پر جب بہادر شاہ کا کیمپ لگایا جا رہا تھا تو بیدار بخت نے بہادر شاہ کے کیمپوں کو آگ لگا دی ۔ ذوالفقار خان نے مشورہ دیا کہ جنگ کو فی الحال ملتوی کر دیا جاۓ لیکن بادشاہ نے ایک بھی نہ سنی ۔ بادشاہ نے دوبارہ غصے میں آ کر ذوالفقار پر بھی حملہ کر دیا ۔ ذوالفقار کے بھاگنے کے ساتھ اس کے کچھ سردار بھی ساتھ بھاگ گئے ذولفقار شیروں کی طرح سب کا مقابلہ کرتا رہا لیکن اس کو بھی ایک گولی لگ گئی اور وہ بھی مر گیا ۔ بہادر شاہ نے اعظم کے ساتھ بلکل مختلف سلوک کیا ۔ اعظم کا ایک بیٹا علی تبار تھا ۔ جب وہ بہادر شاہ کو ملا تو اس نے اس کو گلے لگا لیا اور سب کو معاف کر دیا ۔



١٧٠٩ میں بہادر شاہ نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ اور کام بخش پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ اگرچہ کام بخش کے پاس فوج بہت کم تھی لیکن وہ بڑے حوصلے کے ساتھ لڑا اور شدید زخمی ہو گیا ۔ پھر یہ تیروں کا نشانہ بنتا رہا ۔ آخر کار کام بخش بھی مر گیا ۔ کام بخش نے ایک ہاتھی اور ایک قرآن پاک کا نسخہ چھوڑا تھا ۔ جو اس نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا ۔ بہادر شاہ نے کام بخش کی تدفین کا خود انتظام کروایا اور اسکو شہنشاہ ہمایوں کے پہلو میں دفن کیا ۔  


 



About the author

160