دنیا کے رنگ بو

Posted on at


دنیا کے رنگ بو

ویسے تو اس کائنات میں صرف اللہ کی ذات ہی ایک رنگ میں ہے باقی سب اللہ کی مخلوقات رنگ و ترنگ میں ہے۔ کئی غریب دو وقت کی روٹی کو سسکتا ہے اور کئی ایسے لوگ بھی ہے جو کے پل پل کے اخراجات کروڑوں میں۔  لیکن اس مادیت کی دنیا میں اس وہی فائدے میں ہے جو دلی سکون سے سرشار  ہے۔  اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک ہی پیٹ  سب انسانیت کو عطا کیا۔ کوئی دنیا بھر کے ذائقے سے بھرپور کھانے خردونوش کرتا ہے پھر بھی صحت جیسی نعمت سے مرحوم ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو روکھی سوکھی کھا کر اپنا وقت گزار رہے ہیں لیکن  پھر   بھی وہ اچھی صحمت مند زندگی گزار رہے ہین ۔ جب زندگی میں قناعت آ جائے اور خدا پر بھروسہ کرنے کا ڈھنگ آ جائے تو زندگی پرسکون گرزتی ہے۔  

 اگر ہم  اس دنیا میں زندگیوں کا موازنہ کریں تو سماج مختلف طبقات میں بھٹا ہے۔ لیکن یہ طبقات سکڑ کر دو بڑے ظبقات کی شکل اخیتار کر لیتا ہے۔  ایک وہ جو انسان کو معاشری جانور قرار دیتا ہے۔ اور دوسرا وہ جنہوں نے اشرف المخلوقات کے درجے پر   پنہچا دیا ہے دراصل یہ اس کا درست مقام ہے۔  وہ طبقہ جو انسان کو معاشرتی جانور کہتا ہے اس نے انسانی زندگی کو طربیہ کم اور المیہ زیادہ کر دیا ہے۔ ان کےنزدیک یہ شکل و صورت سے تو انسان ہے مگر خوہشات میں بھیڑیا، محل سراؤں میں متمدن انسان اور میدانوں میں جنگلی درندہ ہے۔ یہ سرشت میں تو آدمی ہے مگر بہمیت میں دنیا میں سب سے زیادہ خون خوار جانور لیکن اولاد آدم کی یہ آبادیاں اور بستیاں راحت و سکون کے نام سے بے بہرہ اور امن کے تنفس سے خالی ہے۔ یعنی انسان کا رتبہ کسی جانور سے گرا ہوا ہے اور یہ تو کسی خوفناک درندے سے بھی زیادہ خوفناک اور خطرناک ہے۔ کیونکہ درندے تو اپنے کمتر اور کمزور کو نقصان پہنچاتے ہیں مگر یہ تو اپنے جیسوں کو بھی معاف نہیں کرتا۔اور ان کے خون سے ہولی کھیل کر اسے راحت و سکون میسر آتا ہے۔اس لئے تو ہم یہاں پر آ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ آب و ہوا کی ناساز گاریاں، یہ انسان کی علم سے بیزاریاں یہ نئے ماحول کی آریاں، مولد و منشاء سے دورنیاں، یہ حکومتوں کی سر گردانیاں، ہمدرد دوستوں کا فقدان، یہ معاشی اور توانائی کا بحران یہ زیست پر گردوغبار کا غازہ، یہ غم دوش پر عزت کا جنازہ، یہ تبسم پر لگے غم کے پیوند، یہاں مصائب ہر لمحہ دو چند، تلاش معاش میں سرگرداں ہنر مند اور عشرت کدوں میں محواستراحت دولت مند، مظلوم انسانیت کی تذلیل کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔

 

انسان کوکم کردار کہنے والے دیکھتے ہیں کہ انسان تو خطاکار، گنہگار، شرابی، چور ، فریبی ، جھوٹا، مکار، دغاباز ، قاتل ، سنگدل اور خون خوار ہے ان کا نظریہ یہ ہے کہ انسان تو قارون ہے فرعون ہے۔ لیکن یہ بات فراموش کر دیتے ہیں انسان تو نبی پاکؐ بھی ہیں، موسیٰ کلیم اللہ بھی ہیں۔ عیسیٰ روح اللہ بھی ہیں۔ اگر انسان ناری ہے تو نوری بھی ہے۔  پست ہے تو بلند بھی ہے۔ ادنیٰ ہے تو اعلیٰ بھی ہے۔ بہودہ ہے توپاکیزہ بھی ہے۔ اگر اس کا رویہ قاتلانہ ہے تو عادلانہ بھی ہے۔ شیطان ہے تو رحمان بھی ہے اگر ایک طرف انسان پستی میں غرق ہے تو دوسری طرف معراج کردار کی مسند پر متمکن ہے۔مگر کیا ہوا جو فرشتے خطاکار نہیں۔ انہیں تو غصہ ہی نہیں آتا۔ کیا ہوا جو چوری نہیں آتے ان کی تو ضروریات ہی نہیں ہیں۔ کمال تو انسان کا ، فضلیت ہے تو انسان کی کیونکہ اگر اسے غصہ آتا ہے تو پی جاتا ہے۔ 

درحقیقت جب انسان نے قدم بڑھایا تو اس نے ستاروں پر کمند ڈالیں۔ خلاؤں کو تسخیر کیا زمین کی کوکھ میں دفن معدنی دولت کے خزانے اگلووئے، سمندر کا سینہ چیر ڈالا اور فلک بوس پہاڑسر کر لئےانسان زندگی کی شب تاریک کو اگر سحر نہ کر سکتا تو فرشتوں سے سجدہ نہ کروایا جاتا۔ اس کی خدمت کے لئے ملائکہ مقرر نہ کئے جاتے۔ فرشتے اس کے دعا نہ کرتے۔

انسان سے نفرت کے شرر بجھ کے رہیں گے

صدیوں کی یہ دیوار کسی دن تو گرے گی۔

 

 

 

 



160