جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

Posted on at


جلال پادشائی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شہرہ آفاق شعر بڑا پر معنی اور پراثر ہے- دین کا مطلب  زندگی بسر کرنے کا ایسا جامع اور صحت مند لائحہ عمل  جس کو مرتب کرنے والی الله کی پاک ذات ہے جس نے لوگوں کی بھلائی کے لئے  اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ لائحہ عمل لوگوں تک پہنچایا- پاک ہستی کے مرتب کے جانے والے طریقے سے روگردانی تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں- اگر سیاست کی بات کی جائے تو اس سے مراد مملکت کے نظام کو بخوبی سنبھالنا اور چلانا ہے جس سے معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم ہو اور لوگ سکو ن کی زندگی گزار سکیں- چنگیزی سے مراد لا قانونیت ہے اور خون خرابہ ہے- ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان قوم مذھب سے علیحدگی اختیار کر لیں تو پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے-

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات مانا جاتا ہے اس میں نہ صرف فرض عبادتوں کو ادا کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں بلکہ زندگی گزارنے کے تمام اصول بھی واضح طور پر  بیان کیے گئے ہیں- آپس میں تعلقات ، لین دین ، ہمسایوں اور رشتہ داروں  کے حقوق، جنگ اور صلح کے آداب مکمل طور پر بیان کے گئے ہیں- سیاست بھی معاشرے کا ایک اہم جز ہے اگر ہم چاھتے ہیں کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن اور امن کا گہوارہ ہو تو سیاست کو اللّہ کی مقرر کردہ حدود میں رکھنا ہو گا- سورت الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے کہ : " لا تقدمو بین یدی الله و رسولہ" ، اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں الله اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حدود سے اگی نہ بڑھو، خواہ وہ نماز پڑھنا  ہو یا ملکی سیاست کو سنبھالنا ہو-

اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانوں نے جب لوگوں کے حقوق غضب کیے تو رنجشوں اور نفرتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا- روس اور فرانس کا خونی انقلاب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جہاں کسانوں اور مزدورں نے اپنے اوزاروں کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا- بیس سال پہلے ایران کے رضا شاہ کو اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے کسی نے پناہ نہیں دی حتی کہ اسے دفنانے کے لئے جگہ بھی مشکل سے ملی تھی اس کے ساتھ یہ سب اس لئے ہوا کہ اس نے من ماننے قوانین نافذ کے اور الله کے احکامات کو پس پشت  ڈال دیا تھا- حضور نبی کریم کا زمانہ بھی تھا جب سیاست دین کے تابع تھی- کفار نے مسلمانوں پر ظلم کی کوئی کسر نہ  چھوڑی تھی  لیکن الله کے رسول ن ے ایک قطرہ بھی خون کا بہاے بغیر مکّہ کو فتح کر لیا-

ایک  حاکم کے دین دار ہونے اور بے دین ہونے سے سلطنت پر گہرا اثر پڑتا ہے- چنگیز خان نے جب نیشاپور فتح کیا تو اس نے قتل عام کا حکم دیا جس سے شہر کا نام و نشان مٹ گیا اس کے برعکس جب الله کے رسول نے مکّہ فتح کیا تو لوگ خوفزدہ تھے نہ جانے ان کے ظلم و ستم کے بدلے ان سے کیا سلوک کیا جائے گا- الہ کے نبی اونٹنی پر سوار تھے لیکن ناظرین عاجزی اور الله کے خوف سے جھکی ہوئی تھیں- کسی کے ساتھ برا سلوک نہ کیا عام معافی کا اعلان کر دیا گیا تھا- سلطنت کا نظام الله کے بتاۓ گئے اصولوں کے مطابق کیا گیا-

خلفاء کے دور حکومت میں دین اور سیاست میں مکمل ہم آہنگی تھی اور مسلمان قوم طاقتور قوم مانی جاتی تھی- اس کے بعد جب اموی حکمرانوں  نے سیاست سے دین کو دور کیا تو ان کے زوال کی ابتدا ہو گئی- مسلمان آپس میں لڑنے لگ گئے- مسلمان قوم جب کمزور پڑ گئی اس بات کا فائدہ دین کی روح سے بے خبر قوم نے اٹھایا- سیاست اگر دینی حدود میں رہ کر کی جائے تو بنی نوع انسان کے لئے باعث رحمت ہے اور اگر دینی قدروں کو پامال کیا جائے تو درندگی ہے- دین ایک ایسا رہنما ہے جو سیاست کو بےراہ روی سے بچا سکتا ہے-  



About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160