ریڈو پاکستان کی فعالیت

Posted on at


ایک ذمانہ تھا کہ لوگ تفریح حاصل کرنے کے لیے سینماوں اور تھیٹروں میں جایا کرتے تھے اور کچھ گھروں میں میوزک اور گیت سننے کے لیے گرامو فون ریکارڈ پلیر رکھے گئے تھے جو خاص طور پر مہمانوں کو بھی سنوائے جاتے تھے۔ اور جس گھر میں گراموفون ہوتا تھا اُسے علاقے میں خاص اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ یہ بجلی سے نہیں بلکہ چابی بھر کر چلایا جاتا تھا۔ الارم ٹائم پیس کی طرح اس کے اندر ایک گول سپرنگ ہوتا تھا جوکہ چابی گھمانے سے کس جاتا تھا اور ریکارڈ کو پلے کرتا ہوا آہستہ آہستہ کھلتا تھا اور دوبارہ چابی گھمانا پڑتی تھی۔ گرامو فون کمپنیوں میں سب سے مقبول ہیر ماسٹر وائس کمپنی ہے۔

اب گراموں فون اور اس کی کمپنیاں ختم ہو چکی ہیں اس کے بعد ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، ہر ملک کے بڑے شہروں میں ریڈیو سٹیشن کھل گئے تھے جو کہ اب بھی قائم ہیں۔ جب ریڈیو ہر گھر کی ضرورت بنا تو شہروں میں ریڈیو کی بڑی بڑی دکانیں کھل گئی تھی اور جب ٹیلی وژن متعارف ہوا تو اس نے ریڈیو کو پحچھے  چھوڑ دیا، کیونکہ جو پروگرام اور خبریں ریڈیو کے ذریعے کانوں سے سنی جاتی تھی وہ ٹی وی سکرین پر آنکھوں سے دیکھی جانے لگی، لہذاء اب کسی گھر میں بھی ریڈیو نظر نہیں آتا اور نہ ہی مارکیٹ میں کہیں ریڈیو کی دکان نظر آتی ہے مگر ریڈیو سٹیشن ہر شہر میں جوں کے توں قائم ہیں اور قائم رہیں گئے۔

کیونکہ ان کی ضرورت ختم نہیں ہو سکتی، ایسے دیہات اور دورافتادہ علاقے جہاں بجلی نہیں ہے یا ٹی وی کے سگنل نہیں جاتے وہاں کے لوگ ریڈیو کے پروگرام اور خبریں سنتے ہیں اسکے علاوہ چلتی گاڑیوں میں بھی ٹرانزسٹر لگے ہوتے ہیں جس کے ذریعے سفر کے دوران بھی ریڈیو پروگرام سنے جا سکتے ہیں۔ ہمارا ٹٰی وی اپنے معیاری پروگراموں کی وجہ سے بہت آگے نکل چکا ہے، مگر ریڈیو اپنے کم پروگراموں کی وجہ سے بہت پحچھے رہ گیا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس بجٹ بہت کم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی وی کی نسبت ریڈیو میں فنکاروں، قلمکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کا معاوضہ بھی انتہائی کم ہے مگر اسکے باوجود ہر قسم کے فنکاران سے تعاون کر رہے ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ کہ ریڈیو کے پروڈیوسر وغیرہ، فنکاروں کو انتہائی عزت کی نگاہ سےدیکھتے ہیں، ریڈیو کے پروگراموں کے ساتھ فنکاروں کی روزی، روزٹی لگی ہوئی ہے مگر وہاں پروگراموں کی کمی اور ان کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ریڈیو اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ اگر ریڈیو کے ارباب اختیار چاہیں تو وہ اپنے پروگراموں کا معیار بلند کر کے پھر سے اپنا مقام بنا سکتے ہیں، اگر ان کے پروگرام اچھے ہوں تو لوگ ٹی وی کے ساتھ ساتھ ان کے پروگرام بھی ضرور سنیں گئے مگر بات وہی بجٹ کی ہے، اور بجٹ ذیادہ فراہم کرنے سے بھی ریڈیو کے پروگراموں کا معیار بلند ہو سکتا ہے، ریڈیو سے ذیادہ تر علاقائی پروگرام براڈکاسٹ کیے جاتے ان پر توجہ دینی چاہیے۔ کئی سال پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے ایک ہندکو فیچیر قہوہ خانہ نشر ہوا کرتا تھا جسے سننے کے لیے لوگ اپنی دکانیں بند کر دیتے تھے۔ ریڈیو جب یہ اچھے پروگرام نشر کرے گا تو لوگ بھی راغب ہوں گئے اور اسے کمرشلز ببھی ملیں گئے۔

Written and Composed by; ABID RAFIQUE



About the author

abid-rafique

Im Abid Rafique student of BS(hons) in chemistry and and now i m writer at film annex. I belong to pakistan.

Subscribe 0
160