لفظ الله کی اسمی اہمیت

Posted on at


تسمیہ میں استعمال ہونے والا دوسرا لفظ اللہ ہے - جو ذات بری پر دلالت کرتا ہے اسی وجہ سے سے اسے اسم ذات کہتے ہیں - اور یس کے علاوہ باقی سب کو اسماے صفات - یہ لفظ بری تعالیٰ کی ان تمام صفات اور حسن و کمال کو حاوی ہے جن سے وہ متصف ہے- کس بےذات کا ادراک اس کی صفات کو جاننے ہی سے ممکن ہے- محض چند صفات کے حوالے سے کسی کی جزوی اور نامکمل معرفت تو حاصل ہو سکتی ہے اس کا مکمل تعارف ممکن نہیں- اسم ذات شخصیت "من حیتالکل نشاندھی کرتا ہے- یس کی دلالت محض شخصیت کے کسی گوشے یا پہلو پر نہیں ہوتی- جب کہ اسماے صفات میں ہر اسم کسی نہ کسی ایک صفت کو بیان کرتا ہے-
لفظ قدیر ﷲﷻ کی صفت قدرت پی دلالت ہے- علیم یس کی صفت علم پر، حی اس کی صفت حیات پر، کلیم یس کی دفت کلام پر، سمیع و بصیر یس کی صفت سمع و بصر پر، خالق یس کی صفت خلق پر، رب یس کی صفت ربوبیت پرپر اور رحمان و رحیم اس کی صفت رحمت پر- یہ سب اسماے ذات الله کی مختلف صفات کی نشاندہی کرتے ہیں-
ان میں سے کوئی بھی اسم ایسا نہیں کے جو جمیع صفات کا احاطہ کر سکے- اور یس کے سنتے ہی یس حسن مطلق کا ایسا تصور زہین میں آ سکے- ﷲﷻ ہی ایک ایسا نام ہے جس کی دلالت کلی طور پر واجب الوجود پر ہے- جو جامع صفات و کمالات ہے-
یہ ذات حق کی کسی ایک یا چند صفات کی نہیں بلکہ بیک وقت ذات اور اس کی تمام صفات کی نشاندہی کرتا ہے- کیونکہ صفات ایک اعتبار سے گویا ذات کا حصہ ہوتی ہے- جب کہ ذات اپنی کسی بے صفت کا حصہ نہیں ہوتی- ذات کے دامن میں اس کی تمام صفات از خود مموجود ہوتی ہیں- اس لئے اسم ذات ہی جملہ صفات و کمالات کو پورے طور پر محیط ہوتا ہے-



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160