امتحانات میں ناجائز ذرائع کا استمال (حصہ دوئم )

Posted on at


دراصل حالات ہی حد درجہ مخدوش ہو گئے ہیں –اکثر امتحانی مراکز پر یونین کے عہد یداران قبضہ کر لٹے ہیں اور امتحانی عملہ کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ خاموشی سے اپنا حصہ وصول کرتے جایں –ورنہ ان سے بعد ترین سلوک کیا جاے گا –امتحان دینے والی طلبہ سے باقاعدہ رقم وصول کی جاتی ہے

اور انہیں ناجائز ذرائع استمال کرنے کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں –یوں بھی ہوتا ہے کہ پرچہ کمرہ امتحان سے باہر بھیج دیا جاتا ہے اور باہر سے حل کروا کے دوبارہ لیا جاتا ہے –امتحانی مراکز میں ایسی صررت حال پیدا کرنے والو کو "قبضہ گروپ" کہا جاتا ہے-اور اخبارات میں بری بری سرخیوں کے ساتھ ان کی کارکردگیاں پیش کی جاتی ہیں –امتحانات کے بائیکاٹ تو اب معمول بن گئے ہیں اور اسلحہ کے زور پر بائیکاٹ کراے جا رہے ہیں –

کبھی کبھی اخبارات میں خبر چھپتی ہے کہ انتظامیہ نے کچھ پکڑ دکھڑ کی ہے-لیکن یہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے اور محض اشک شوئی ہوتی ہے-جبکہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہتی ہے- ایسے مراکز میں جب انسپکٹر صاحبان معا ینہ کی غرض سے جاتے ہیں .تو مصلحت اسی میں سمجھتے ہیں کہ اپنی معمول کی کاروائی کو جتنی جلد ممکن ہو سکے ،مکمل کر کے واپس چلے جایں

اگر وہ مراکز کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اپنے مقام کو طول دینے کی غلطی کریں تو پھر امتحانوں کے تقدس کو پامال کرنے والی عناصر ان پر باتیں کستے ہیںاور انہیں یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر انھیں اپنی عزت کا ذرا سا بھی خیال ہے تو مراکز سے چلتا بنیں –امتحانی ایجنسیوں کے اعلی افسران جب امتحانی مراکز کے معانے پی جاتے ہیں تو ان کے ساتھ نہی کوئی بہتر سلوک نہیں ہوتا –کہنے کو تو امتحانی مراکز پر دفعہ ١٤٤ لگا دی جاتی ہے،لیکن جس طرح یک کی خلاف ورزی کی جاری ہے وہ نظم و نسق قائم کرنے والے اداروں کے لیے بحث شرم ہے -



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160