درندگی اور سفاکی ( حصہ دوم )

Posted on at


 

پہلے جب ہم ایسی کوئی بھی خبر ستے تھے تو ہمارے دل دھل جاتے تھے لیکن آج کل میں ہم بہت جلد ایسی کوئی بھی خبر کے خوف سے باہر نکل آتے ہیں بس اسی دوعا کہ ساتھ کے شکر ہے یہ سب ہمارے بچوں کے ساتھ نہیں ہوا وہ محفوظ ہیں. لیکن میں یہ کہتا ہوں کے کیا جس بھی بچی کے ساتھ ایسا ہوا اس کے ماں باپ نہیں تھے کیا وہ کسی کی بیٹی نہیں تھی اس معصوم کا کیا قصور تھا جسے ابھی ٹھیک طرح سے بات کرنے کا بھی نہیں پتا تھا .

اگر ہم ایسے ہی خاموش ہوتے رہے ہر ایسی خبر پر تو مجھے ڈر ہے کہیں ہمارا ملک اس قسم کے کرائم سے بھر نہ جائے کیوں کے ایسے واقعات دن با دن زیادہ ہو رہے ہیں .

کیوں کے ایسے درندوں کا نہ تو آج تک پتا چلا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی ایسی سزا ملی ہے جسے سن کے دوسرے درندے اس طرح کے کام کرنے سے رک سکیں . میرے خیال سے ایسے کسی بھی درندے کو جب ہاتھ میں آ جائے تو سارے بازار لوگوں کے سامنے قتل کیا جائے یا انہیں کسی ایسے جانور کے آگے دال دیا جائے جو ان کی کھال تک نوچ لے پھر انہیں احساس ہو کے انہوں نے کیا کام کیا تھا .

 

اور اس کے ساتھ ہی والدین کو بھی چاہے کے وو اپنے بچوں کی ٹھیک پرورش کریں کیوں کہ جب پرورش ٹھیک ہو گی تو اس طرح کے کرائم بھی کم دیکھنے میں ملیں گے . اگر کوئی بچہ پڑھائی میں دل چسپی نہیں لیتا تو اسے جلد ہی کوئی ہنر سکھ دیا جائے . اور ہمارے لوگوں کو بھی چاہے کے ایسے کسی بھی واقعے پر آواز اٹھائیں کیوں کہ ایسے درندے ہر جگہ ہے اور یہ کام کسی کے بھی بچے یا بچی کے ساتھ ہو سکتا ہے. الله کی ذات سب کے بچوں کو ایسے درندوں سے محفوظ رکھے . ( آمین )



About the author

160