بین الاقوامی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال نے امتحانی بورڈز کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ محض چند طلباء کے یونیورسٹی میں داخلے کے علاوہ عام لوگوں کو یہ آگاہی بگی دیں کہ مقامی اسکولوں کی کارکردگی کیسی ہے۔ ان معلومات کے بامعنی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ یہ کیسی معیار، یا کامیابی کی کسی توقع سے وابستہ ہون۔ اس معاملہ میں پاکستان کے بورڈز کو بدقسمتی کا سامنا ہے۔
انہیں ایسے امتحانات کروانے ہوتے ہیں جن میں مضمون بہ مضمون، سال بہ سال، سوالات کو حل کرنے سے پہلے ہی ملے شدہ فیصدی نمبروں سے طالب علم کی کامیابی جانچی جاتی ہے.
امتحانات کے موقع پر پیش گوئیوں کا ہمت شکن سلسلہ چل نکلتا ہے جس کے برے نتائج ہوتے ہیں. بورڈز ہر سال امتحانات میں وہی سوالات دہرا دیئے جاتے ہیں، اس طرح ٹیوشن سینٹروں کا کاروبار تو چلتا رہتا ہے، تاہم بورڈز مضامین کو حالیہ تبدیلیوں سے ہم آہنگ بنانے کے معاملے میں ہو پیچھے رہ جاتے ہیں۔
مضامین کو چند محدود گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مختلف شعبہ ہائے جات میں افرادی قوت کی فراہمی میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے۔ آخر کس ملک میں ایسا عدم توازن ہے کہ ایک نرس کے مقابلے میں پانچ ڈاکٹر ہوں؟
متوسط طبقے کے طلبا کے والدین اور اسکول ملکان بھی یہ جانتے ہیں کہ مضامین کی سخت اور محدود گروپنگ ان کے بچوں کے فطری رحجانات اور پیشہ وار نہ انتخاب پر کس طرح کی سخت روکاوٹیں حائل کر دیتی ہے۔ چنانچہ لوگوں کی بڑی تعداد اب، او لیول، سسٹم کی طرف راغب ہو رہی ہے حالانکہ آئی بی سی سی کی جانب سے اس سسٹم کے لئے کوئی قابل ذکر ضابطہ سازی جبکہ اس کے برطانوی ہم منصب ادارے، اہ ایف کیو اے ایل، کی جانب سے اس کے لئے کوئی ضابطہ سازی نہیں کی گئی ہے۔