حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ان کا خریدار

Posted on at


اگ کوئ اپنا خریدار چاہتا ہے تو اللہ تعالی سے بڑھ کر کون خریدار ہوگا۔ بتا کیا مول ہے؟ تیری کیا قیمت ہے؟ ثمنا قلیلا پر بک نہ جانا۔ یہ متاع الدنیا ہے۔ جوبہت ہی قلیل ہے بینائی بند ہوتے ہی یہ دولت ختم ہو جاتی ہے۔


ہر بولی لگانے والے سے بڑھ کر بولی لگانے والا موجود ہے۔ لیکن اس مالک سے بڑھ کر کوئ تیری قیمت نہیں لگا سکتا ۔ وہ فانی جسم خرید کر ابدی جنت عطا کرتا ہے چند آنسووں کے عوض حوض کوثر عطا کرتا ہے اس کے بازار میں آ۔اپنا پرانا مال۔ناکارہ مال۔کباڑخانہ۔ فروخت کر اس کے بدلے نئی سلطنت لازوال سلطنت حاصل کر۔ اگر تجھے اس کاروبار میں کوئی شک ہے تو انبیاء وصلحاءامت کی طرف نظر دوڑا انہوں نے کتنا نفع کمایا کہ پہاڑ بھی نہ اٹھا سکیں


حضرت بلال کا رضی اللہ عنہ کا آقا امیہ بن خلف اس کو امیہ نا خلف بھی کہا جا سکتا ہے انہیں کانٹوں پہ گھسیٹ رہا ہے دہکتے انگاروں پر جسم کی بوٹیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہیں خون سے لت پت وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے صرف اتنا کہتا تھا پلیز میرا مذہب نہ چھوڑو میرا ایک ووٹ گھٹ جاے گا۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گذر ہوا دیکھا تو ان کے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھی اس ٹیس میں درد وکرب بھی تھا اور لذت و سرور بھی۔ بلال رضی اللہ عنہ کی تکلیف میں درد و کرب تھا اور اس کے استقبال پر لذت وسرور۔ ہر چیز کا مزہ بلال رضی اللہ عنہ ہی تھا موقع پاکرآپ نے اس کے کان میں کہا تھوڑی دیر کے لے اپنے ایمان کو چھپا لو کہ وہ تو چھپے ایمان کو بھی جانتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرکیا یعنی ایمان کے اعلان سے سے توبہ کا وعدہ۔


دوسرے دن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گزرے تو بلال رضی اللہ عنہ کا وہ ہی حال تھا۔ پتہ چلا۔ بلال نے اس توبہ سے توبہ کر لی ہے وہ اس توبہ سے بیزار ہوگیا ہے اور اپنے جسم کا مال اٹھا کر اس نے بازار میں رکھھ دیا ہے۔ امیہ ناخلف نے اس کی قیمت کوڑے لگاے سخت کوڑے اور وہ کوڑے لگاے جا رہا تھا لگاے جا رہا تھا بلال رضی اللہ عنہ کہتے "نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز" کہ قیمت اور بڑھا اوربڑھا اور بڑھا کہ تیری لگای ہوی قیمت ابھی بہت کم ہے ۔


اس مال کے خریدار اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیغام بر حضرت صدیق اکبر بھی تھے انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کی وہ قیمت لگائی کہ امیہ سوچ بھی نہ سکتا تھا اس کی نظریں کھلی کی کھلی رہ گئی۔


صدیق اکبر رضی اللہ عنہ انہیں خرید کر بازار مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں لے گئے بلال رضی اللہ عنہ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کی محبت میری رگ رگ میں روں روں میں انگ انگ میں یوں سمائی ہوئی تھی جیسے انار دانوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس لے ایمان کو چھپانے کے لے وہاں کوئی خانہ خالی نہ تھا ۔ اس لے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کیا ہوا وعدہ ایمان کے اظہار سے توبہ کا وعدہ ٹوٹ گیا اتنی جگہ کہاں تھی دل داغدار میں معزرت چاہتا ہوں ۔


اس توبہ سے توبہ ۔ جس ایمان کے بدلے جنت ملے اس ایمان کو کیوں چھپایا جاے۔ عشق کی تیز ہوا کے سامنے جسم کی تکلیف ایک تنکا ہے۔


وہ مالک وہ خریدار فانی اشیاء کو دیکھنے والی نظر کے بدلے باقی اشیاء کو دیکھنے والی نظر عطا کرتا ہےدوزخیوں کے لے جنت کا شہد بھی کڑوا ہے اس لے کہ اس نے جنت کے شہد کا ذائقہ چکھنے والی زبان دینے والے کو اپنی زبان فروخت ہی نہیں کی۔ اللہ تعالی سے صلح تو اسی وقت ہو گی جب ہر غیر سے صلح اور محبت ختم ہو جاے گی وہ کسی معاملے میں اپنی شرکت پسند نہیں کرتا۔


اپنا مال غیر کے ہاتھوں بیچنے والے بتا تجھے وہاں سے کیا ملا اور کیا ملے گا جن کو تیرے مال کی قدر ہی نہیں وہ کیا دیں گے گائے۔ بھینس۔ گدھے نے اپنے گلے میں ہیرے جواہرات کے ہار اور لاکٹ کبھی نہیں پہنے کہ انہیں ان کی قدرو منزلت کی خبر ہی نہیں اور جن کو سونے چاندی ہیرے جواہر اور موتی کی قدر ہے وہ قیمت جھولی میں ڈالے بازار میں گھومتے پھرتے ہیں ۔


بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ کی غلامی پر ہزاروں آزادیاں قربان میں تو اب کبھی آزادی نہیں چاہوں گا میں جوانی میں خواب دیکھا کرتا تھا کہ سورج مجھے سلام کرتا ہے اور چاند بلائیں لیتا ہے اور ستارے جھکنے کو آتے ہیں انہوں نے مجھے زمین سے اوپر کھینچ لیا اور اپنے ہمراہ ہی کر لیا میں سوچتا تھا یہ خواب میرے دماغ کا خلل ہے کہ ایک غلام زر خرید غلام اور اتنی بلندیاں دیوانے کا خواب ہے یا پاگل پن ہے لیکن آپ کے شرف صحبت نے ساری حقیقت کھول دی کہ آپ نے مجھے اپنے سایہ وجود میں پناہ دے دی    



About the author

160