ہمدردی

Posted on at



دوسروں کے دکھ درد ،رنج و غم میں شریک ہونے کا نام ہمدردی ھے انسان کی تخلیق کا راز اسی میں ھے کہ وہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو۔ اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش ائے اور ہمدردی میں ایک ایسی خوبی ھے جو انسان کی تکمیل کا باعث ھے ۔ جو صحیح معنوں میں انسان کو انسان بناتی ھے اگر دنیا کے نظام میں ہمدردی کا مادہ نہ ہوتا تو دنیا کے نظام میں گڑ بڑ پڑ جائے

اگر ہمدردی نہ ہو تو بیمار کی دلجوئی کون کرے تیمارداری کون کرے  ؟ دوائی کون لائے؟ ڈاکٹر کو کون بلائے؟ یتیموں اور بیواوں کی خبر گیری کون کرے ؟ بھوکوں کو کھانا کون کھلائے؟ پیاسوں کی پیاس کون بجھائے؟ مصیبت ذدوں کو مصیبت سے نجات کون دلائے؟ یہ سب کچھ جزبہ ہمدردی کے تحت ہو رہا ھے۔ صرف ذات الہی ایسی ھے جو دوسروں سے بے نیاز ھے جو دوسروں کی محتاج نہیں ۔ جو دوسروں کی دست نگر نہیں جس کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ کوئی اس کا معاون و مدد گار ہو۔ انسان تو قدمقدم پر دوسروں کی دست نگر

کا محتاج ھے وہ دوسروں کا دست نگر ھے اس کا کوئی کام بھی دوسروں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیھتی باڑی ہو یا صنعت و حرفت،تجارت ہو یا حکومت، انسان ہر میدان میں دوسروں کی ہمدردی کا محتاج ھے ۔ مشاہدات گواہ ھیں کہ خالق نے ہر ذی عقل اور غیر ذی عقل میں ہمدردی کا مادہ کوت کوت کہ بھر دیا ھے مرگی کو دیکھیے ایک دانہ کوڑے میں سے تلاش کر کے فورا اپنے چوزوں کو کڑ کڑ کر کے بلاتی ھے کوئی پوچھے اس سے کہ کیا طمع ھے کیا یہ اسے بڑے ہو کر کما کر کھلائے گے نہیں یہ محض ہمدردی کا جزبہ ھی ھے ۔ زرا چڑیوں کو دیکھئے کس طرح اپنے چھوٹے بچوں کو پرورش کر  کے بڑا کرتی ھین۔ ادھر ادھر سے کیڑے مکوڑے تلاش کر کے منہ میں لاتی ھیں اور اپنے بچوں کے منہ میں ڈال دیتی ھیں۔ماں اپنے بچوں کی تربیت کے لئے جس قدر ےکلیف برداشت کرتی ھے وہ اسی کو معلوم ہوتا ھے سردی کی راتیں ھیں بچہ بستر پر پیشاب کر دیتا ھے گیلے بستر پر خود سو جاتی ھے اور بچے کو خشک بستر پر کر دیتی ھے بچے کو اگر زرا تکلیف ہو تو ساری رات انکھوں میں گزار دیتی ھے بھلا کیوں؟ صرف ہمدردی کے جزبے کے زیر اثر۔

 ایک مرتبہ حضرت محمد نے ایک بڑھیا کو دیکھا کہ اٹے کی بھاری گٹھڑی اتھائے اہستہ اہستہ جا رہی ھے اپ اس کی اس تکلیف کو دیکھ کہ تاب نہ لا سکے فورا اگے بڑھ کر گٹھڑی اپنے سر پر لے لی اور اسے منزل مقصود پر پہنچا دیا وہ بڑھیا ایک امیر یہودی کی کنیز تھی اس واقعہ سے یہودی اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام لے ایا اسے دیکھ کر اس کے خاندان کے کئی اور یہودی بھی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ قوم سے پیار، وطن سے محبت، دوستوں سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے نیک برتاوٗ، حیوانوں پر شفقت اور بے زبانوں پر رحم، یہ ہمدردی کا ہی نتیجہ ھے ورنہ کون ھے جو اوروں کے لئے اپنی جان دکھوں میں ڈالتا ھے اور اپنے اپ کو مصیبتوں میں ڈالتا ھے

۔شیخ سعدی فرماتے ھیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص جنگل سے جا رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک کتا جو پیاس کے مارے مرنے کے قریب تھا پاس ہی ایک کنواں تھا اپ جلدی سی کنوے پر گئے پر وہاں کوئی ڈول نہ تھا اخر سر سے پگڑی اتاری اسے کنویں میں لٹکایا اور بھگو کر کتے کے منہ مین نچوڑ دیا ۔ کتے کے منہ میں پانی پڑا تو اس نے انکھیں کھول دیں اور اس کی جان بچ گئی۔ کہتے ھیں کہ رحمت ایزدی جوش میں ائی اس زمانے کے پیغمبر نے اطلاع دی کہ خدا نے اس شخص کے سارے گناہ بخش دیے ھیں۔ ھم سب کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اس جزبہ کو اپنائیں کیونکہ ہمدردی ہی دنیا میں امن وامان کا باعث ھے ہمدردی ہی تمام تنازعات اور فسادات کا واحد علاج ھے کاش انسان ہمدردی کا مجسمہ بن جائے۔امین



About the author

amjad-riaz

you can ask me

Subscribe 0
160