ماں باپ دونوں ہی بیٹا بیٹی میں فرق کرتے ہیں.

Posted on at


الله بیٹی کو رحمت بنا کر پیدا کرتا ہے.اور الله پاک کا فرمان ہے کے جب بھی وہ کسی انسان سے خوش ھوتا ہے تو اس کے گھر بیٹی کو پیدا کرتا ہے.مگر جس بھی انسان کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ اس کو زحمت سمجھتا ہے اس سے ناخوش ھوتا ہے در اصل وہ اس بیٹی سے نہیں بلکے اپنے الله کے فیصلے سے ناخوش ھوتا ہے.اور اس دن سے ہی باپ آپنی بیٹی ناپسند کرتا ہے اور اس سے دور رہتا ہے اور پرانے زمانے میں تو جب بھی بیٹی پیدا ہوتی تھی تو باپ اس کو زندہ دفنا دیتا تھا بیٹی کی پیدائش کو باپ اپنے لئے بحث شرم سمجھتے ہیں جب کے وہ ان کے لئے بحث فخر ہوتی ہیں.

ہمارے یہاں پر شروع سے ہی یہ ھوتا رہا  ہے کے بیٹی کے ساتھ  ناانصافی ہوتی رہی ہے آج تک کبھی کسی نے اس معصوم کی خوشیوں خواہشوں ارمانوں اور زندگی کے بارے میں نہیں سوچا یہاں تک کے اس کے اپنے باپ نے بھی کبھی نہیں سوچا آج کے دور میں باپ آپنی بیٹی کو قبول تو کر لیتا ہے اس کو زندہ دفناتا بھی نہیں لیکن اب بھی وہ اس کو پسند نہیں کرتا یہاں دیکھو بیٹی کے پیدا ہونے پر لوگ افسوردہ نظر آ رہے ہوتے ہیں.کہی سے بھی اگر یہ خبر ملے کے بیٹا پیدا ھوا تو لوگ کہتے اہیں مبارک ہو اور اگر یہ خبر ملے کے بیٹی پیدا ہوئی تو لوگ افسوس کرنے لگتے ہیں.اور کہتے ہیں الله بیٹا عطا کر ے مگر کبھی  بھی کسی نے یہ نہیں کہا کے اللہ تمہیں  بیٹی عطا کر ے 

یہ تو اس بیٹی کے پیدا ہونے پر سب کرتے ہیں مگر اس کے بعد بھی اس کی زندگی میں یہی سب لگا رہتا ہے پیدا ہوتے ہی باپ فرق کرتا ہے اور بعد میں ماں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتی کہنے کو تو ماں کبھی آپنی اولا د میں فرق نہیں کرتی مگر در اصل وہ بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتی باپ بیٹا بیٹی کی تعلیم خواہشوں خوشیوں میں فرق کرتا ہے تو ماں کے بس میں بھی جو جو ھوتا ہے وہ بھی وہ  کرتی ہے.وہ اس کے کھا نے پینے میں فرق کرتی ہے جسیے اچھی بوٹی بیٹے کو دیتی ہے اور بری بیٹی کو ،بیٹے کو پھلے اور اچھے کپڑے لے کر دیئے جاتے ہیں اور بیٹی کو بعد میں 

بیٹی کو گھر بیٹھا دیا جاتا ہے اور بیٹے کو پڑھنے بھیج دیا جاتا ہے جب کے تعلیم سب سے زیادہ ضروری لڑکیوں کے لئے ہوتی ہے.مگر اس کو ہی تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے .اور وہ پھر ہمیشہ اپنے مشکل وقت میں دوسروں کے سہارے بہٹھی رہتی ہے اور ان کی ہی بری بالی بتائیں سنتی ہیں .اگر اس کے والدین اس کو تعلیم حاصل کرنے دے تو وہ کبھی کسی کی محتاج  نہ ہو مگر ایسا بہت کم ھوتا ہے کے والدین بی کبھی آپنی بیٹی کے بارے میں سوچتے ہیں.

سب ہی عورتوں کے حقوق ،ان پر تشدد ،ان کے ساتھ ناانصافی ،اور بھی بڑ ی بڑ ی بتائیں کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں مگر اکبھی بھی خود وہ ان سب چیزوں کو ٹھیک نہیں کرتے اور نہ ہی کرنا چاھتے ہیں اور نہ ہی خود ،خودی کی لکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں .اگر وہ  چاہے تو  ان سب چیزوں پر عمل کر سکتے ہیں ان سب برائیوں کو ختم بھی کر سکتے ہیں ہم سب نے ہی یہ سارا مہاشرہ بنایا ہے تو پھر ہم سب ہی اس کو بدل بھی سکتے ہیں مگر بات پھر وہی آ جاتی ہے کے اگر ہم چاہے ؟؟؟؟

 



About the author

shararti-kuri

em a shararti kuri ...........welcome to ma world ;)

Subscribe 0
160