برات کے لغوی معنی بری ہونے کے ہیں اس رات میں چونکہ گناہ گاروں کی مغفرت اور مجرموں کی برات ہوتی ہے اس لیے اس رات کو شب برات کہتے ہیں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات حضرت محمدﷺ تہجد کے لیے کھڑے ہوئےنماز شروع کی اور سجدے میں پہنچے تو اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے خطرہ ہو گیا کہ خدانخوستہ آپؐ کی روح قبض ہو گئی ہےیہاں تک کہ میں پریشان ہو کر اٹھی اور آپ کے پاس جا کر آپؐ کے انگوٹھے کو حرکت دی آپؐ کی کچھ حرکت فرمائی جس سے مجھے اطمینان ہو گیا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ! عائشہ تم جانتی ہو کہ یہ کونسی رات ہے ؟ میں عرض کی کہ اللہ تعالی اور اسکے رسول خوب جانتے ہیں
آپؐ نے فرمایا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اللہ تعالی اس رات میں خاص طور پر اہل عالم کی طرف توجہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے والوں کی مغفرت اور رحم کی دعا کرنے والون پر رحم فرماتا ہے سوائے آپس میں کینہ رکھنے والوں کے حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو جاگو اور نماز پڑھو اور دن کو روزہ رکھواس لیے کہ اللہ تعالی اس رات کو غروب آفتاب کے وقت سے پہلے ہی آسمان پر تجلی فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ ہم اسکی مغفرت کر دیں ، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ ہم اسے رزق دیں یہ صدائے عام اس طرح جاری رہتی ہیں یہان تک کہ صبح ہو جائے
ہم مسلمانوں کے لیے جو اعمال اس رات مین مسنون ہیں وہ یہ ہیں
رات کو جاگ کر نماز و نوافل پڑھنا اور ذکر و تلاوت میں مشغول رہنا
اللہ تعالی سے مغفرت ، عافیت اور اپنے مقاصد دارین کی دعا مانگنا
اس رات کی صبح کو ہعنی پندرھویں تاریخ کو روزہ رکھنا یہ سب مسنون عمل ہیں
یہ ہم سب مسلمانوں کے لیے بہت عظیم اور مغفرت والی رات ہے اسلیے اس رات میں ہم کو قیام کر کے اپنے گناہوں کی بخشش کروانی چاہیے اور عالم اسلام کی سر بلندی کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔