"معصوم کلی سے گلاب بننے تک کا سفر "

Posted on at



 


میری کہانی ایک ان مٹ واقعات کا نشانہ بنننے والے ایک ایسے خاندان مظفرآباد کے ایک پوش علاقے مے رہائش پزیر تھا.
حور یہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور ہر بھر کی آنکھوں کا ترتھی . اس کے والدین نے غربت کے باوجود خوب محنت و مشقت کر کے اپنی بیٹی کو ہر آسائش فراہم کی تھی . وو اپنی باتوں سے ہر ایک کا دل موہ لیتی تھی . وہ شوخ، چخچل اور شر پرسی بچی ہر ایک کے دل میں گھر کر لینے کا گر جانتی تھی . بچپن سے اس کی ڈاکٹر بننے کی خوش نے اس کے ماں باپ کے سامنے لا محدود میری کہانی ایک ان مٹ واقعات کا نشانہ بنننے والے ایک ایسے خاندان مظفرآباد کے ایک پوش علاقے مے


 



رہائش پزیر تھا.


حور یہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور ہر بھر کی آنکھوں کا ترتھی . اس کے والدین نے غربت کے باوجود خوب محنت و


مشقت کر کے اپنی بیٹی کو ہر آسائش فراہم کی تھی . وو اپنی باتوں سے ہر ایک کا دل موہ لیتی تھی . وہ شوخ، چخچل اور شر پرسی بچی ہر ایک کے دل میں گھر کر لینے کا گر جانتی تھی . بچپن سے اس کی ڈاکٹر بننے کی خوش نے اس کے ماں باپ کے سامنے لا محدود حوریہ کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کے خواب کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کرنا شروع کر دی . وو بہت ذہین تھی .جیسے جیسے وو شعور کے منازل تہ کرتی گئی اس کی ذہانت کھل کر گئی . جب اس نے مٹرک کا امتحان امتیزی نمبروں سے پاس کیا تو پورے اس کے باپ کی دائمی جدائی کا غم ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا.
حوریہ کی ماں ان سب حالات کے پیش ا نظر اپنی بیٹی کی خواہش کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیا. وو لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی اور وہاں سے فرحت ہے بعد کارخانوں کا رخ کرتی .




اسی تگ ودو میں سات سال گزر گے. اب اس کے میڈیکل کے آخری سال کے پپرز مے ابھی ایک ماہ کا ارسا باقی تھا کے اسے اپنی ماں کی یاد لگی . حوریہ نے اپنی آٹھ دوستوں کے ساتھ منصوبہ بنایا اور چھٹی کے لیے ایپلیکیشن دے ڈالی اور صرف حوریہ کی ایپلیکیشن منظور ہو گئی . جب حوریہ نے ہونے گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھا تو تو اس کو ماں دکھ کر جی اٹھی .
خوشی و حیرت کا مجسمہ نظر آنے لگا .
حالات کی سختیوں اور تنہائیوں نے اسے جن امراض میں مبتلا کیا اور جن دکھوں سے ہمکنار رکھا تھا وو یکدم چھت گے اور وو گھنٹوں اپنی بیٹی کے لاڈ اور نخرے اٹھانے میں مگن رہی .گاؤںمیںہرطرف اسکی دھوم مچ گئی اور اس کے ماں باپ کا سر فخر سے ا صبح سویرے ہی کو آرام کی تلقین کر کے حسب ا محمول اپنے کام پر روانہ و گئی .
وو ابھی راستے مے ہی تھی کے اچانک ایک خوفناک آواز ائی اور ہر طرف چا گئی . اس ہولناک آواز کی گونج سے ہر زی روح چونک اٹھا . ہر طرف اندھیرا چا گیا زمین تھرتھرانے لگی اس نہ گہانی آفت نے سب کو اپنی لپیٹ



میں لے لیا ہر طرف قیامت کا سماں نظر آنے لگا چار سو چیخ و پکار سنی دی ہر شخص اپنے رب کو پکار اٹھا ذرا اندھیرا چٹا تو بوڑھے جوان الله کے حضور سجدہ ریز دکھائی سینے لگے .
وو شاندار عمارتیں جن کو میں صالحہ سال لگ جاتے تھے پل بھروسے میں زمین بوس ہو گئیں .دیکھتے ہی دیکھتے قصبے میدانوں میں تبدیل ہو گے جب ذرا زمین تھمی تو ہر ایک کو اپنے گر کی لگی لوگ اپنے گھروں کی طرف جانے لگے جہاں ان کے اپنے مٹی ریت کے ڈھیر تلے دبے مدد کے لیے پکار رہی تھے . .حوریہ کی ماں اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے گھر کی طرف لپکی . وو اکیلی اپنی بیٹی کو مٹی اور پتھروں کے ڈھیروں مے سے



کیونکر تلاش کر پاتی . وو چیختی چلاتی رہی اور ہر ایک کو اپنی مدد کے لیے پکار رہی تھی لیکن لوگ اپنے عزیزوں کو بچانے میں سرگرداں تھے کوئی اس کی مدد کیسے آ پاتا .
اگلے دن جب سورج طلوع ہوا تو حوریہ کا ماں اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ اپنے گر کے ملبے پر بیٹھی اپنی بیٹی کے لیے آنسو بھا رہی تھی . ساری رات کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی کے عالم نیں بارش میں بسر



کرنے کے سبب بخار و زکام نے اسے آ گھیرا جب وو وہیں بیٹھے بیٹھے بیہوش ہو گئی تی قریبی لوگوں نے اسے اٹھا کر میڈیکل کیمپ لے گے .
ادر حوریہ اپنی ڈاکٹر دوستوں کو اپنی رداد ساتے ہوے کہ رہی تھی جب اسے ماں آرام کی تلقین کرتے ہے بہر نکلی تو اسی اپنی بچپن کے سہیلی سے ملنے کو سوجھی وو گھر سے نکل پر جس کی وجہ سے وو بچ گئی کے اچانک ایک شخص ڈاکٹر کو بلانے کے لیے کیمپ میں داخل ہوا تو حوریہ کو اپنے سامنے دیکھ کر ٹھٹک گیا تو کہنے لگا کے تماری ماں تمہارے صدمے کے بھیس ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی ہے اور میں اسی بیہوشی



 


کی حالت میں ادھر اٹھا لیا ہوں .
یہ سنتے ہی وو اپنی ماں کی طرف لپکی اس کی ماں اسے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر جا چکی تھی اچانک اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کانٹوں پی ننگے پاؤں کھڑی ہے جیسے وو تیز دھوپ میں تنہا کھڑی ہے اس کے سر


 



..........سے سائباں چھن گیا ہے اور اس کے لبوں پی صرف یہ ہی الفاظ تھے........کاش اس کی ماں اسے ڈاکٹر بنا دیکھ لیتی ...........کاش .........وو اپنی  کلی کو گلاب بنا دیکھ لیتی .



About the author

amjad-riaz

you can ask me

Subscribe 0
160